صحيح البخاري
كتاب الأضاحي -- کتاب: قربانی کے مسائل کا بیان
7. بَابٌ في أُضْحِيَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ وَيُذْكَرُ سَمِينَيْنِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے دو مینڈھوں کی قربانی کی۔
حدیث نمبر: 5555
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى صَحَابَتِهِ ضَحَايَا، فَبَقِيَ عَتُودٌ، فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ضَحِّ أَنْتَ بِهِ"
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں تقسیم کرنے کے لیے آپ کو کچھ قربانی کی بکریاں دیں انہوں نے انہیں تقسیم کیا پھر ایک سال سے کم کا ایک بچہ بچ گیا تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی قربانی تم کر لو۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3138  
´قربانی کے لیے کون سا جانور کافی ہے؟`
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں عنایت کیں، تو انہوں نے ان کو اپنے ساتھیوں میں قربانی کے لیے تقسیم کر دیا، ایک بکری کا بچہ بچ رہا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی قربانی تم کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3138]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حدیث میں عتود کا لفظ ہےجس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے:
جو بچہ خود چرنے چگنے کے قابل ہوجائےاور ماں کا محتاج نہ رہے۔

(2)
نواب حیدالزمان رحمۃ اللہ علیہ  نے عتود کے معنی ایک سال کا بکری کا بچہ کیے ہیں۔ (ترجمہ حدیث زیر مطالعہ)
ہم نے اپنے ترجمہ کو اسی کو اختیار کیا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3138   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1500  
´بھیڑ کے جذع کی قربانی کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے لیے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کر دیں، ایک «عتود» (بکری کا ایک سال کا فربہ بچہ) یا «جدي» ۱؎ باقی بچ گیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا، تو آپ نے فرمایا: تم اس کی قربانی خود کر لو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1500]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
راوی کو شک ہوگیا ہے کہ عتود کہا یا جدی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1500   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5555  
5555. سیدنا عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں کچھ بکریاں دیں تاکہ وہ آپ کے صحابہ کرام‬ ؓ م‬یں بطور قربانی تقسیم کر دیں۔ انہوں نے تقسیم کیں تو یکسالہ بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا انہوں نے نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: اس کو تم ذبح کرلو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5555]
حدیث حاشیہ:
مگر ایسا کرنا کسی اور کے لیے کفایت نہیں کرے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5555   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5555  
5555. سیدنا عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں کچھ بکریاں دیں تاکہ وہ آپ کے صحابہ کرام‬ ؓ م‬یں بطور قربانی تقسیم کر دیں۔ انہوں نے تقسیم کیں تو یکسالہ بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا انہوں نے نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: اس کو تم ذبح کرلو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5555]
حدیث حاشیہ:
(1)
عتود بکری کے ایک سالہ اس بچے کو کہتے ہیں جو سال بھر کھا پی کر خوب موٹا تازہ ہو گیا ہو۔
اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کا عنوان ثابت ہوتا ہے کہ قربانی کا جانور خوب موٹا تازہ ہونا چاہیے، البتہ بکری کے لیے دو دانتا ہونا ضروری ہے۔
(2)
مذکورہ ایک سالہ بچے کی اجازت صرف سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے لیے تھی جیسا کہ بیہقی میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تیرے بعد یہ رخصت کسی اور کے لیے نہیں ہے۔
(السنن الکبریٰ للبیهقي: 270/9، رقم: 19536، و فتح الباري: 16/10) (3)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام وقت کو چاہیے کہ جو لوگ قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں بیت المال سے قربانیاں خرید کر دے۔
(عمدة القاري: 557/14)
آج کل سعودیہ اور کویت کے اہل خیر نے اس سنت کو زندہ کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ انہیں اپنے ہاں اجر عظیم دے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5555