صحيح البخاري
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- کتاب: مشروبات کے بیان میں
14. بَابُ شَوْبِ اللَّبَنِ بِالْمَاءِ:
باب: دودھ میں پانی ملانا (بشرطیکہ دھوکے سے بیچا نہ جائے) جائز ہے۔
حدیث نمبر: 5612
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: شَرِبَ لَبَنًا، وَأَتَى دَارَهُ فَحَلَبْتُ شَاةً، فَشُبْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبِئْرِ، فَتَنَاوَلَ الْقَدَحَ، فَشَرِبَ، وَعَنْ يَسَارِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَعَنْ يَمِينِهِ أَعْرَابِيٌّ، فَأَعْطَى الْأَعْرَابِيَّ، فَضْلَهُ، ثُمَّ قَالَ:" الْأَيْمَنَ فَالْأَيْمَنَ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پیتے دیکھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے تھے (بیان کیا کہ) میں نے بکری کا دودھ نکالا اور اس میں کنویں کا تازہ پانی ملا کر (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو) پیش کیا آپ نے پیالہ لے کر پیا۔ آپ کے بائیں طرف ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں طرف ایک اعرابی تھا آپ نے اپنا باقی دودھ اعرابی کو دیا اور فرمایا کہ پہلے دائیں طرف سے، ہاں دائیں طرف والے کا حق ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 471  
´دوسروں کو پلانے والا پہلے خود پی سکتا ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بلبن قد شيب بماء وعن يمينه اعرابي وعن يساره ابو بكر الصديق، فشرب ثم اعطى الاعرابي وقال: الايمن فالايمن.»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا جس میں (کنویں کا) پانی ملایا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک اعرابی (دیہاتی) اور بائیں طرف سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دودھ) پیا پھر (باقی دودھ) اعرابی کو دے دیا اور فرمایا: دایاں (مقدم ہے) پھر (جو اس کے بعد) دایاں ہو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 471]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 926/2 ح 787، ك 49 ح 17، التمهيد 151/6، الاستذكار: 1720، أخرجه البخاري 5619، ومسلم 2029، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ اپنے پینے کے لئے دودھ میں پانی ڈالنا جائز ہے لیکن اسے خالص دودھ کے نام پر بیچنا جائز نہیں ہے۔
➋ دوسروں کو پلانے والا پہلے خود پی سکتا ہے۔
➌ کھانے پینے کی چیزیں اگر دوسروں کو تحفتاً دی جائیں تو دائیں طرف سے ابتدأ کرنا چاہئے۔
➍ تحفہ قبول کرنا مسنون ہے بشرطیکہ کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو۔
➎ دودھ پینا مسنون اور صحت و توانائی کے لئے بہترین غذا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 3   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3726  
´جو شخص قوم کا ساقی ہو وہ کب پئے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا جس میں پانی ملایا گیا تھا، آپ کے دائیں ایک دیہاتی اور بائیں ابوبکر بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا پھر دیہاتی کو (پیالہ) دے دیا اور فرمایا: دائیں طرف والا زیادہ حقدار ہے پھر وہ جو اس کے دائیں ہو ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3726]
فوائد ومسائل:
فائدہ: ان دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ ساقی خود آخر میں پیے۔
اور جسے مجلس میں دودھ وغیرہ پیش کیا جائے۔
وہ اوروں کی طرف بڑھائے۔
تو دایئں والے کو دے اور پھر اسی طرح آگے پیش کیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3726   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5612  
5612. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دودھ پیتے دیکھا۔ آپ ان کے گھر تشریف لائے تو میں نے (حضرت انس) نے بکری کا دودھ نکالا اور اس میں کنویں کا تازہ پانی ملا کر رسول اللہ ﷺ کو پیش کیا۔ آپ ﷺ نے پیالہ لیا اور اسے نوش فرمایا۔ آپ کی بائیں جانب حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھےاور دائیں جانب ایک اعرابی تھا۔ آپ نے اپنا باقی دودھ اعرابی کو دیا، پھر فرمایا: حق اس شخص کا ہے جو دائیں جانب ہو پھر وہ حق دار ہے جو اسے دائیں جانب ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5612]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ کھانا کھلاتے اور شربت یا دودھ پلاتے وقت دائیں طرف سے شروع کرنا چاہیئے اگرچہ بائیں جانب بڑے بزرگ ہی کیوں نہ ہوں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5612   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5612  
5612. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دودھ پیتے دیکھا۔ آپ ان کے گھر تشریف لائے تو میں نے (حضرت انس) نے بکری کا دودھ نکالا اور اس میں کنویں کا تازہ پانی ملا کر رسول اللہ ﷺ کو پیش کیا۔ آپ ﷺ نے پیالہ لیا اور اسے نوش فرمایا۔ آپ کی بائیں جانب حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھےاور دائیں جانب ایک اعرابی تھا۔ آپ نے اپنا باقی دودھ اعرابی کو دیا، پھر فرمایا: حق اس شخص کا ہے جو دائیں جانب ہو پھر وہ حق دار ہے جو اسے دائیں جانب ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5612]
حدیث حاشیہ:
(1)
دودھ جب نکالا جاتا ہے تو گرم ہوتا ہے۔
گرم علاقوں میں اس کی گرمی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، اس لیے عرب لوگ اس کی گرمی کا توڑ ٹھنڈے پانی سے کیا کرتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے تو آپ نے پینے کے لیے پانی طلب فرمایا تو ہم نے اپنی بکری کا دودھ دوہا اور اس میں کنویں کا پانی ملا کر آپ کو پیش کیا۔
(صحیح البخاري، الھبة و فضلھا و التحریض علیھا، حدیث: 2571) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانا کھلاتے یا کوئی مشروب پلاتے وقت دائیں طرف سے شروع کرنا چاہیے، خواہ بائیں جانب بڑے بڑے بزرگ ہی تشریف فرما کیوں نہ ہوں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5612