مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ -- 0
2. مُسْنَدُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 4
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: قَالَ إِسْرَائِيلُ : قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ : عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ بِبَرَاءَةٌ لِأَهْلِ مَكَّةَ: لَا يَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِك، وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، مَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدَّةٌ، فَأَجَلُهُ إِلَى مُدَّتِهِ، وَاللَّهُ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَسَارَ بِهَا ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:" الْحَقْهُ، فَرُدَّ عَلَيَّ أَبَا بَكْرٍ، وَبَلِّغْهَا أَنْتَ"، قَالَ: فَفَعَلَ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ بَكَى، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدَثَ فِيَّ شَيْءٌ؟ قَالَ:" مَا حَدَثَ فِيكَ إِلَّا خَيْرٌ، وَلَكِنْ أُمِرْتُ أَنْ لَا يُبَلِّغَهُ إِلَّا أَنَا، أَوْ رَجُلٌ مِنِّي".
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امیر حج بنا کر بھیجتے وقت اہل مکہ سے اس برائت کا اعلان کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکے گا، کوئی آدمی برہنہ ہو کر طواف نہیں کر سکے گا، جنت میں صرف وہی شخص داخل ہو سکے گا جو مسلمان ہو، جس شخص کا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی خاص مدت کے لئے کوئی معاہدہ پہلے سے ہوا ہو، وہ اپنی مدت کے اختتام تک برقرار رہے گا اور یہ کہ اللہ اور اس کا پیغمبر مشرکین سے بری ہیں۔ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس پیغام کو لے کر روانہ ہو گئے اور تین دن کی مسافت طے کر چکے، تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابوبکر کے پیچھے جاؤ اور انہیں میرے پاس واپس بلا کر لاؤ اور امارت حج نہیں لیکن صرف پیغام تم نے اہل مکہ تک پہنچانا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ روانہ ہو گئے، جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ واپس آئے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور وہ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! کیا میرے بارے کوئی نئی بات پیش آ گئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کے بارے تو صرف خیر ہی پیش آ سکتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ اس پیغام کو اہل عرب کے رواج کے مطابق اہل مکہ تک یا خود میں پہنچا سکتا تھا یا میرے خاندان کا کوئی فرد، اس لئے میں نے صرف یہ ذمہ داری علی کے سپرد کر دی۔