مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ -- 0
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 95
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، دُعِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ عَلَيْهِ، فَقَامَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ تَحَوَّلْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي صَدْرِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعَلَى عَدُوِّ اللَّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ الْقَائِلِ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، يُعَدِّدُ أَيَّامَهُ، قَالَ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَسَّمُ، حَتَّى إِذَا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ، قَالَ:" أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ، إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ، وَقَدْ قِيلَ: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ سورة التوبة آية 80، لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ"، قَالَ: ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهِ، وَمَشَى مَعَهُ، فَقَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى فُرِغَ مِنْهُ، قَالَ: فَعَجَبٌ لِي وَجَرَاءَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا كَانَ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ هَاتَانِ الْآيَتَانِ: وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ سورة التوبة آية 84، فَمَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ عَلَى مُنَافِقٍ، وَلَا قَامَ عَلَى قَبْرِهِ، حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا انتقال ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے بلایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے پاس جا کر نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں اپنی جگہ سے گھوم کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس دشمن اللہ عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جس نے فلاں دن یہ کہا تھا اور فلاں دن یہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی بکواسات گنوانا شروع کر دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے لیکن جب میں برابر اصرار کرتا ہی رہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: عمر! پیچھے ہٹ جاؤ، مجھے اس بارے اختیار دیا گیا ہے اور میں نے ایک شق کو ترجیح دے لی ہے، مجھ سے کہا گیا ہے کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں دونوں صورتیں برابر ہیں، اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لئے بخشش کی درخواست کریں گے تب بھی اللہ ان کی بخشش نہیں فرمائے گا، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے پر اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں ستر سے زائد مرتبہ اس کے لئے استغفار کرتا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، جنازے کے ساتھ گئے اور اس کی قبر پر کھڑے رہے تاآنکہ وہاں سے فراغت ہو گئی، مجھے خود پر اور اپنی جرات پر تعجب ہو رہا تھا، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ بہتر جانتے تھے، بخدا! ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ مندرجہ ذیل دو آیتیں نازل ہو گئیں۔ «وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ» [9-التوبة:84] ان منافقین میں سے اگر کوئی مر جائے تو آپ کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں اس کی قبر پہ کھڑے نہ ہوں، بیشک یہ لوگ تو اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان ہیں اور فسق کی حالت میں مرے ہیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی اور اسی طرح منافقین کی قبروں پر بھی کبھی نہیں کھڑے ہوئے۔