مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ -- 0
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 239
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، قَالَ: لَمَّا ارْتَدَّ أَهْلُ الرِّدَّةِ فِي زَمَانِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ عُمَرُ : كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ يَا أَبَا بَكْرٍ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقْد عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ"؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَيْهَا، قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ.
عبیداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اہل عرب میں سے جو مرتد ہو سکتے تھے، سو ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کر سکتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ لیں، جو شخص لا الہ الا اللہ کہہ لے، اس نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، ہاں اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہو گا؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: اللہ کی قسم! میں اس شخص سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، بخدا! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ جو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطاء فرما دی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔