مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ -- 0
3. مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 374
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنِ ابْنِ يَعْمَرَ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: إِنَّا نُسَافِرُ فِي الْآفَاقِ، فَنَلْقَى قَوْمًا يَقُولُونَ: لَا قَدَرَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : إِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَأَخْبِرُوهُمْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مِنْهُمْ بَرِيءٌ، وَأَنَّهُمْ مِنْهُ بُرَآءُ، ثَلَاثًا، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَذَكَرَ مِنْ هَيْئَتِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ادْنُهْ، فَدَنَا، فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَا، فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَا، حَتَّى كَادَ رُكْبَتَاهُ تَمَسَّانِ رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي مَا الْإِيمَانُ؟ أَوْ عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ:" تُؤْمِنُ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ" قَالَ سُفْيَانُ: أُرَاهُ قَالَ:" خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"، قَالَ: فَمَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ:" إِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَحَجُّ الْبَيْتِ، وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَغُسْلٌ مِنَ الْجَنَابَةِ"، كُلُّ ذَلِكَ، قَالَ: صَدَقْتَ، صَدَقْتَ. قَالَ الْقَوْمُ: مَا رَأَيْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِيرًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا، كَأَنَّهُ يُعَلِّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ:" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ، أَوْ تَعْبُدَهُ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَا تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، كُلُّ ذَلِكَ نَقُولُ: مَا رَأَيْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِيرًا لِرَسُولِ اللَّهِ مِنْ هَذَا، فَيَقُولُ: صَدَقْتَ صَدَقْتَ، قَالَ: أَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ بِهَا مِنَ السَّائِلِ"، قَالَ: فَقَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ ذَلِكَ مِرَارًا، مَا رَأَيْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِيرًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا، ثُمَّ وَلَّى، قَالَ سُفْيَانُ: فَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْتَمِسُوهُ" فَلَمْ يَجِدُوهُ، قَالَ:" هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ، مَا أَتَانِي فِي صُورَةٍ إِلَّا عَرَفْتُهُ، غَيْرَ هَذِهِ الصُّورَةِ".
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا کہ ہم لوگ دنیا میں مختلف جگہوں کے سفر پر آتے جاتے رہتے ہیں، ہماری ملاقات بعض ان لوگوں سے بھی ہوتی ہے جو تقدیر کے منکر ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر تم سے بری ہے اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، پھر انہوں نے اس کا حلیہ بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اسے قریب ہونے کے لئے کہا: چنانچہ وہ اتنا قریب ہوا کہ اس کے گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ کے گھٹنوں سے چھونے لگے، اس نے کہا: یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا: تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، جنت و جہنم، قیامت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور تقدیر پر یقین رکھو، اس نے پھر پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو رمضان کے روزے رکھو اور حج بیت اللہ کرو اور غسل جنابت کرو۔ اس نے پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ فرمایا: تم اللہ کی رضاحاصل کرنے کے لئے اس کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کر سکتے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے (اس لئے یہ تصور ہی کر لیا کرو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے)، اس کے ہر سوال پر ہم یہی کہتے تھے کہ اس سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و توقیر کرنے والا ہم نے کوئی نہیں دیکھا اور وہ باربار کہتا جا رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ اس نے پھر پوچھا: کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا: جس سے سوال پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بےخبر ہیں، جب وہ آدمی چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا اس آدمی کو بلا کر لانا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاش میں نکلے تو انہیں وہ نہ ملا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبرئیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے، اس سے پہلے وہ جس صورت میں بھی آتے تھے میں انہیں پہچان لیتا تھا لیکن اس مرتبہ نہیں پہچان سکا۔