مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ -- 0
5. مُسْنَدُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 425
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَبَيْنَا أَنَا كَذَلِكَ، إِذْ جَاءَهُ مَوْلَاهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ: هَذَا عُثْمَانُ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، وَسَعْدٌ ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ ، قَالَ: وَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ طَلْحَةَ أَمْ لَا، يَسْتَأْذِنُونَ عَلَيْكَ، قَالَ: ائْذَنْ لَهُمْ، ثُمَّ مَكَثَ سَاعَةً، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَذَا الْعَبَّاسُ ، وَعَلِيٌّ ، يَسْتَأْذِنَانِ عَلَيْكَ، قَالَ: ائْذَنْ لَهُمَا، فَلَمَّا دَخَلَ الْعَبَّاسُ، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، وَهُمَا حِينَئِذٍ يَخْتَصِمَانِ فِيمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَمْوَالِ بَنِي النَّضِيرِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: اقْضِ بَيْنَهُمَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَأَرِحْ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ صَاحِبِهِ، فَقَدْ طَالَتْ خُصُومَتُهُمَا، فَقَالَ عُمَرُ : أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"؟ قَالُوا: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، وَقَالَ لَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ، فَقَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي سَأُخْبِرُكُمْ عَنْ هَذَا الْفَيْءِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَصَّ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ غَيْرَهُ، فَقَالَ: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ سورة الحشر آية 6، وَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً، وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ قَسَمَهَا بَيْنَكُمْ، وَبَثَّهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهُ سَنَةً، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ مِنْهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ، أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا كَانَ يَعْمَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غلام جس کا نام یرفا تھا اندر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عثمان، عبدالرحمن، سعد اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہم اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: بلا لو، تھوڑی دیر بعد وہ غلام پھر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: انہیں بھی بلا لو۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اندر داخل ہوتے ہی فرمایا: امیر المؤمنین! میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، اس وقت ان کا جھگڑا بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے بارے تھا، لوگوں نے بھی کہا کہ امیر المؤمنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ہر ایک کو دوسرے سے نجات عطاء فرمائیے کیونکہ اب ان کا جھگڑا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، پھر انہوں نے سیدنا عباس، علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہی سوال پوچھا: اور انہوں نے بھی تائید کی، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں۔ اللہ نے یہ مال فئی خصوصیت کے ساتھ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، کسی کو اس میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور فرمایا تھا: «وما افاء الله على رسول منهم فما او جفتم عليه من خيل ولا ركا ب» اس لئے یہ مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھا، لیکن بخدا! انہوں نے تمہیں چھوڑ کر اسے اپنے لئے محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی اس مال کو تم پر ترجیح دی، انہوں نے یہ مال بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیا یہاں تک کہ یہ تھوڑا سا بچ گیا جس میں سے وہ اپنے اہل خانہ کو سال بھر کا نفقہ دیا کرتے تھے اور اس میں سے بھی اگر کچھ بچ جاتا تو اسے اللہ کے راستہ میں تقسیم کر دیتے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے مال کا ذمہ دار اور سرپرست میں ہوں اور میں اس میں وہی طریقہ اختیار کروں گا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے۔