مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ -- 0
5. مُسْنَدُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 439
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، قَالَ: دَعَا عُثْمَانُ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهِمْ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ، فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكُمْ، وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ تَصْدُقُونِي، نَشَدْتُكُمْ اللَّهَ: أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْثِرُ قُرَيْشًا عَلَى سَائِرِ النَّاسِ، وَيُؤْثِرُ بَنِي هَاشِمٍ عَلَى سَائِرِ قُرَيْشٍ؟ فَسَكَتَ الْقَوْمُ، فَقَالَ عُثْمَانُ: لَوْ أَنَّ بِيَدِي مَفَاتِيحَ الْجَنَّةِ لَأَعْطَيْتُهَا بَنِي أُمَيَّةَ حَتَّى يَدْخُلُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِهِمْ، فَبَعَثَ إِلَى طَلْحَةَ، وَالزُّبَيْرِ، فَقَالَ عُثْمَانُ: أَلَا أُحَدِّثُكُمَا عَنْهُ، يَعْنِي عَمَّارًا؟ أَقْبَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِذًا بِيَدِي نَتَمَشَّى فِي الْبَطْحَاءِ، حَتَّى أَتَى عَلَى أَبِيهِ وَأُمِّهِ وَعَلَيْهِ يُعَذَّبُونَ، فَقَالَ أَبُو عَمَّارٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الدَّهْرَ هَكَذَا؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اصْبِرْ"، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِآلِ يَاسِرٍ، وَقَدْ فَعَلْتُ".
سالم بن ابی الجعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلایاجن میں سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی تھے اور فرمایا کہ میں آپ لوگوں سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے چند باتوں کی تصدیق کروانا چاہتا ہوں، میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ لوگ نہیں جانتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگوں کی نسبت قریش کو ترجیح دیتے تھے اور بنو ہاشم کو تمام قریش پر؟ لوگ خاموش رہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میرے ہاتھ میں جنت کی چابیاں ہوں تو میں وہ بنو امیہ کو دے دوں تاکہ وہ سب کے سب جنت میں داخل ہو جائیں (قرابت داروں سے تعلق ہونا ایک فطری چیز ہے، یہ دراصل اس سوال کا جواب تھا جو لوگ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اقرباء پروری کے سلسلے میں کرتے تھے) اس کے بعد انہوں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں آپ کو ان کی یعنی سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کی کچھ باتیں بتاؤں؟ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے چلتا چلتا وادی بطحاء میں پہنچا، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے والدین کے پاس جا پہنچے، وہاں انہیں مختلف سزائیں دی جا رہی تھیں، عمار کے والد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم ہمیشہ اسی طرح رہیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: صبر کرو، پھر دعاء فرمائی اے اللہ! آل یاسر کی مغفرت فرما، میں بھی اب صبر کر رہا ہوں۔