مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ -- 0
7. مسنَدِ عَلِیِّ بنِ اَبِی طَالِب رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 600
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ ، وَقَالَ مَرَّةً: إِنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي رَافِعٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ، فَقَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ، فَخُذُوهُ مِنْهَا"، فَانْطَلَقْنَا تَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ، فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، قَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، قُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنَقْلِبَنَّ الثِّيَابَ، قَالَ: فَأَخْرَجَتْ الْكِتَابَ مِنْ عِقَاصِهَا، فَأَخَذْنَا الْكِتَابَ، فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ: مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ، يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا حَاطِبُ، مَا هَذَا؟"، قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ، وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا، وَكَانَ مَنْ كَانَ مَعَكَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ أَهْلِيهِمْ بِمَكَّةَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ كُفْرًا، وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي، وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ"، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ:" إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ قَدْ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ روانہ ہو جاؤ، جب تم روضہ خاخ میں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہو گا تم اس سے وہ خط لے کر واپس آ جانا، چنانچہ ہم لوگ روانہ ہو گئے، ہمارے گھوڑے ہمارے ہاتھوں سے نکلے جاتے تھے، یہاں تک کہ ہم روضہ خاخ جا پہنچے، وہاں ہمیں واقعۃ ایک عورت ملی، ہم نے اس سے کہا کہ تیرے پاس جو خط ہے وہ نکال دے، اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہم نے اس سے کہا کہ یا تو، تو خود ہی خط نکال دے ورنہ ہم تجھے برہنہ کر دیں گے۔ مجبور ہو کر اس نے اپنے بالوں کی چوٹی میں سے ایک خط نکال کر ہمارے حوالے کر دیا، ہم وہ خط لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس خط کو جب کھول کر دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ وہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے کچھ مشرکین مکہ کے نام تھا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فیصلے کی خبر دی گئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے معاملے میں جلدی نہ کیجئے گا، میں قریش سے تعلق نہیں رکھتا، البتہ ان میں شامل ہو گیا ہوں، آپ کے ساتھ جتنے بھی مہاجرین ہیں، ان کے مکہ مکرمہ میں رشتہ دار موجود ہیں جن سے وہ اپنے اہل خانہ کی حفاظت کروا لیتے ہیں، میں نے سوچا کہ میرا وہاں کوئی نسبی رشتہ دار تو موجود نہیں ہے، اس لئے ان پر ایک احسان کر دوں تاکہ وہ اس کے عوض میرے رشتہ داروں کی حفاظت کریں، میں نے یہ کام کافر ہو کر، یا مرتد ہو کر، یا اسلام کے بعد کفر کو پسند کرتے ہوئے نہیں کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے تم سے سچ بیان کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شدت جذبات سے مغلوب ہو کر فرمایا: مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ غزوہ بدر میں شریک ہو چکے ہیں اور تمہیں کیا خبر کہ اللہ نے آسمان سے اہل بدر کو جھانک کر دیکھا اور فرمایا: تم جو کچھ کرتے رہو میں تمہیں معاف کرچکا۔