مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ -- 0
7. مسنَدِ عَلِیِّ بنِ اَبِی طَالِب رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 725
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِلنَّاسِ: مَا تَرَوْنَ فِي فَضْلٍ فَضَلَ عِنْدَنَا مِنْ هَذَا الْمَالِ؟ فَقَالَ النَّاسُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَدْ شَغَلْنَاكَ عَنْ أَهْلِكَ وَضَيْعَتِكَ وَتِجَارَتِكَ، فهو لك، فقال لِي: مَا تَقُولُ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: قَدْ أَشَارُوا عَلَيْكَ، فَقَالَ: قُلْ، فَقُلْتُ: لِمَ تَجْعَلُ يَقِينَكَ ظَنًّا؟ فَقَالَ: لَتَخْرُجَنَّ مِمَّا قُلْتَ، فَقُلْتُ: أَجَلْ، وَاللَّهِ لَأَخْرُجَنَّ مِنْهُ، أَتَذْكُرُ حِينَ بَعَثَكَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعِيًا، فَأَتَيْتَ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَمَنَعَكَ صَدَقَتَهُ، فَكَانَ بَيْنَكُمَا شَيْءٌ، فَقُلْتَ لِي: انْطَلِقْ مَعِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدْنَاهُ خَاثِرًا، فَرَجَعْنَا، ثُمَّ غَدَوْنَا عَلَيْهِ فَوَجَدْنَاهُ طَيِّبَ النَّفْسِ، فَأَخْبَرْتَهُ بِالَّذِي صَنَعَ، فَقَالَ لَكَ:" أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ؟"، وَذَكَرْنَا لَهُ الَّذِي رَأَيْنَاهُ مِنْ خُثُورِهِ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ، وَالَّذِي رَأَيْنَاهُ مِنْ طِيبِ نَفْسِهِ فِي الْيَوْمِ الثَّانِي، فَقَالَ:" إِنَّكُمَا أَتَيْتُمَانِي فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَقَدْ بَقِيَ عِنْدِي مِنَ الصَّدَقَةِ دِينَارَانِ، فَكَانَ الَّذِي رَأَيْتُمَا مِنْ خُثُورِي لَهُ، وَأَتَيْتُمَانِي الْيَوْمَ وَقَدْ وَجَّهْتُهُمَا، فَذَاكَ الَّذِي رَأَيْتُمَا مِنْ طِيبِ نَفْسِي"؟ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: صَدَقْتَ، وَاللَّهِ لَأَشْكُرَنَّ لَكَ الْأُولَى وَالْآخِرَةَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے فرمایا کہ ہمارے پاس یہ جو کچھ زائد مال بچ گیا ہے اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے؟ لوگوں نے کہا کہ امیر المؤمنین! آپ ہماری وجہ سے اپنے اہل خانہ، اپنے کاروبار اور تجارت سے رہ گئے ہیں، اس لئے یہ آپ رکھ رلیں، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ لوگوں نے آپ کو مشورہ دے تو دیا ہے، انہوں نے فرمایا کہ آپ بھی تو کوئی رائے دیجئے، میں نے عرض کیا کہ آپ اپنے یقین کو گمان میں کیوں تبدیل کر رہے؟ فرمایا: آپ اپنی بات کی وضاحت خود ہی کر دیں۔ میں نے کہا: بہت بہتر، میں اس کی ضرور وضاحت کروں گا، آپ کو یاد ہو گا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو صدقات و زکوٰۃ کی وصولی کے لئے بھیجا تھا، آپ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا، آپ دونوں کے درمیان کچھ اونچ نیچ ہو گئی۔ آپ نے مجھ سے کہا کہ میرے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو، ہم وہاں پہنچے تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ نشاط نہ دیکھا جو ہوتا تھا، چنانچہ ہم واپس آ گئے، اگلے دن جب ہم دوبارہ حاضر ہوئے تو اس وقت ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہشاش بشاش پایا، پھر آپ نے انہیں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بتایا، انہوں نے آپ سے فرمایا کہ کیا آپ کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ انسان کا چچا اس کے باپ کے مرتبہ میں ہوتا ہے۔ پھر ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دن کی کیفیت اور دوسرے دن کی کیفیت کے حوالے سے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب آپ دونوں پہلے دن میرے پاس آئے تھے تو میرے پاس زکوٰۃ کے دو دینار بچ گئے تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ نے مجھے بوجھل طبیعت میں دیکھا اور جب آج آپ دونوں میرے پاس آئے تو میں وہ کسی کو دے چکا تھا اسی وجہ سے آپ نے مجھے ہشاش بشاش پایا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ سن کر فرمایا: آپ نے صحیح فرمایا: بخدا! میں دنیا و آخرت میں آپ کا شکر گزار رہوں گا۔