صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ -- کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
21. بَابُ اللَّدُودِ:
باب: مریض کے حلق میں دوا ڈالنا۔
حدیث نمبر: 5712
قَالَ: وَقَالَتْ عَائِشَةُ:" لَدَدْنَاهُ فِي مَرَضِهِ فَجَعَلَ يُشِيرُ إِلَيْنَا أَنْ لَا تَلُدُّونِي، فَقُلْنَا كَرَاهِيَةُ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ، فَلَمَّا أَفَاقَ، قَالَ: أَلَمْ أَنْهَكُمْ أَنْ تَلُدُّونِي؟ قُلْنَا كَرَاهِيَةَ الْمَرِيضِ لِلدَّوَاءِ، فَقَالَ: لَا يَبْقَى فِي الْبَيْتِ أَحَدٌ إِلَّا لُدَّ، وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَّا الْعَبَّاسَ فَإِنَّهُ لَمْ يَشْهَدْكُمْ".
(عبیداللہ نے) بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض (وفات) میں دوا آپ کے منہ میں ڈالی تو آپ نے ہمیں اشارہ کیا کہ دوا منہ میں نہ ڈالو ہم نے خیال کیا کہ مریض کو دوا سے جو نفرت ہوتی ہے اس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منع فرما رہے ہیں پھر جب آپ کو ہوش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ دوا میرے منہ میں نہ ڈالو۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ شاید آپ نے مریض کی دوا سے طبعی نفرت کی وجہ سے فرمایا ہو گا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب گھر میں جتنے لوگ اس وقت موجود ہیں سب کے منہ میں دوا ڈالی جائے اور میں دیکھتا رہوں گا، البتہ عباس کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ میرے منہ میں ڈالتے وقت موجود نہ تھے، بعد میں آئے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5712  
5712. حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ ہم نے آپ ﷺ کی بیماری کے وقت آپ منہ میں دوا ڈالی تو آپ نے ہمیں اشارہ فرمایا کہ میرے منہ میں دوا نہ ڈالو۔ ہم نے خیال کیا کہ مریض کو دوا سے نفرت ہوتی ہے اس وجہ سے آپ ہمیں منع فرما رہے ہیں۔ پھر جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ میرے منہ میں دوائی نہ ڈالو؟ ہم نے کہا کہ (ہمارا خیال تھا) شاید آپ نے مریض کی دوا سے طبعی نفرت کی وجہ سے ایسا کیا ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اب گھر میں جتنے لوگ اس وقت موجود ہیں، سب کے منہ میں دوا ڈالی جائے اور میں اس منظر کو دیکھتا ہوں لیکن عباس کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ تمہارے اس کام میں شریک نہیں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5712]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے از راہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک کو بوسہ دیا جس سے ثابت ہو گیا کہ بزرگ باخدا انسان کو از راہ محبت بوسہ دیا جا سکتا ہے مگر کوئی شرکیہ پہلو نہ ہونا چاہیئے کہ بوسہ دینے والا سمجھے کہ اس بوسہ سے میری حاجت پوری ہو گئی یا میرا فلاں کام ہو جائے گا۔
یہ شرکیہ تصورات ہیں جن میں اکثر ناواقف لوگ گرفتار ہیں آج کہ نام نہاد پیروں مرشدوں کا یہی حال ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5712   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5712  
5712. حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ ہم نے آپ ﷺ کی بیماری کے وقت آپ منہ میں دوا ڈالی تو آپ نے ہمیں اشارہ فرمایا کہ میرے منہ میں دوا نہ ڈالو۔ ہم نے خیال کیا کہ مریض کو دوا سے نفرت ہوتی ہے اس وجہ سے آپ ہمیں منع فرما رہے ہیں۔ پھر جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ میرے منہ میں دوائی نہ ڈالو؟ ہم نے کہا کہ (ہمارا خیال تھا) شاید آپ نے مریض کی دوا سے طبعی نفرت کی وجہ سے ایسا کیا ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اب گھر میں جتنے لوگ اس وقت موجود ہیں، سب کے منہ میں دوا ڈالی جائے اور میں اس منظر کو دیکھتا ہوں لیکن عباس کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ وہ تمہارے اس کام میں شریک نہیں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5712]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے کہ آپ کو پسلی میں درد شروع ہوا۔
عورتوں نے عود ہندی، تیل میں ملا کر منہ میں ٹپکانے کی کوشش کی کیونکہ آپ بے ہوش تھے۔
آپ نے اشارہ کر کے اس سے منع فرمایا کیونکہ یہ دوا، بیماری کے لیے کارگر نہ تھی بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے "نسخۂ خواتین" قرار دیا، لیکن منع کرنے کے باوجود گھر میں موجود خواتین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں دوائی ٹپکا دی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور سزا ان کے منہ میں دوا ٹپکانے کا حکم دیا۔
(2)
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام سلمہ اور حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے منہ میں دوائی ٹپکائی گئی۔
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا روزے کی حالت میں تھیں۔
(فتح الباري: 185/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5712