صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ -- کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
22. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 5714
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، وَيُونُسُ، قَالَ الزُّهْرِيُّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاشْتَدَّ وَجَعُهُ، اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ فِي أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي، فَأَذِنَّ لَهُ، فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ تَخُطُّ رِجْلَاهُ فِي الْأَرْضِ بَيْنَ عَبَّاسٍ، وَآخَرَ، فَأَخْبَرْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: قَالَ: هَلْ تَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الْآخَرُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ، قُلْتُ: لَا، قَالَ: هُوَ عَلِيٌّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا دَخَلَ بَيْتَهَا وَاشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ هَرِيقُوا عَلَيَّ مِنْ سَبْعِ قِرَبٍ، لَمْ تُحْلَلْ أَوْكِيَتُهُنَّ لَعَلِّي، أَعْهَدُ إِلَى النَّاسِ، قَالَتْ: فَأَجْلَسْنَاهُ فِي مِخْضَبٍ لِحَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ طَفِقْنَا نَصُبُّ عَلَيْهِ مِنْ تِلْكَ الْقِرَبِ، حَتَّى جَعَلَ يُشِيرُ إِلَيْنَا أَنْ قَدْ فَعَلْتُنَّ، قَالَتْ: وَخَرَجَ إِلَى النَّاسِ فَصَلَّى لَهُمْ وَخَطَبَهُمْ".
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر اور یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب (مرض الموت میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چلنا پھرنا دشوار ہو گیا اور آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو آپ نے بیماری کے دن میرے گھر میں گزارنے کی اجازت اپنی دوسری بیویوں سے مانگی جب اجازت مل گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو اشخاص عباس رضی اللہ عنہ اور ایک صاحب کے درمیان ان کا سہارا لے کر باہر تشریف لائے، آپ کے مبارک قدم زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا تمہیں معلوم ہے وہ دوسرے صاحب کون تھے جن کا عائشہ رضی اللہ عنہا نے نام نہیں بتایا، میں نے کہا کہ نہیں کہا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ان کے حجرے میں داخل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ آپ کا مرض بڑھ گیا تھا کہ مجھ پر سات مشک ڈالو جو پانی سے لبریز ہوں۔ شاید میں لوگوں کو کچھ نصیحت کر سکوں۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے ایک لگن میں بٹھایا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حفصہ رضی اللہ عنہ کا تھا اور آپ پر حکم کے مطابق مشکوں سے پانی ڈالنے لگے آخر آپ نے ہمیں اشارہ کیا کہ بس ہو چکا۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے مجمع میں گئے، انہیں نماز پڑھائی اور انہیں خطاب فرمایا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5714  
5714. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور تکلیف زیادہ ہو گئی تو آپ نے بیماری کے دن میرے گھر گزارنے کے لیے اپنی دوسری مطہرات سے اجازت طلب کی۔ انہوں نے آپ کو اجازت دے دی تو آپ دو اشخاص حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان سہارا لے کر باہر تشریف لائے اس وقت آپ کے قدم مبارک زمین پر گھسٹ رہے تھے (راوی کہتا ہے کہ) میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرے صاحب کون تھے جن کا عائشہ‬ ؓ ن‬ے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں مجھے تو معلوم نہیں، انہوں نے کہا: وہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: میرے حجرے میں داخل ہونے کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا جبکہ آپ کی بیماری بڑھ گئی تھی: مجھ پر سات مشکیزے پانی ڈالو جو پانی سے لبریز ہوں، شاید میں لوگوں کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5714]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ عنوان پہلے باب کا تکملہ ہے کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کا ذکر تھا، جس کی حاضرین کو سزا دی گئی حتی کہ روزے دار کو بھی معاف نہیں کیا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کے باوجود آپ کے منہ میں دوائی ڈال دی گئی۔
(2)
اس عنوان کے تحت اس کے برعکس واقعہ بیان ہوا ہے کہ حاضرین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ پر سات مشکیں پانی بہایا تو آپ نے اس کا انکار نہیں کیا۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب مریض کے ہوش و حواس قائم ہوں تو اسے کوئی ایسی چیز استعمال کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جس سے اس نے روک دیا ہو اور جس چیز کے متعلق وہ حکم دے اس کے بجا لانے میں ٹال مٹول نہیں کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 206/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5714