مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ -- 0
7. مسنَدِ عَلِیِّ بنِ اَبِی طَالِب رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 838
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أخبرنا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا زَوَّجَهُ فَاطِمَةَ بَعَثَ مَعَهُ بِخَمِيلَةٍ وَوِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، وَرَحَيَيْنِ، وَسِقَاءٍ، وَجَرَّتَيْنِ، فَقَالَ عَلِيٌّ لِفَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ذَاتَ يَوْمٍ: وَاللَّهِ لَقَدْ سَنَوْتُ حَتَّى قَدْ اشْتَكَيْتُ صَدْرِي، قَالَ: وَقَدْ جَاءَ اللَّهُ أَبَاكِ بِسَبْيٍ، فَاذْهَبِي فَاسْتَخْدِمِيهِ، فَقَالَتْ: وَأَنَا وَاللَّهِ قَدْ طَحَنْتُ حَتَّى مَجَلَتْ يَدَايَ، فَأَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا جَاءَ بِكِ أَيْ بُنَيَّةُ؟"، قَالَتْ: جِئْتُ لَأُسَلِّمَ عَلَيْكَ، وَاسْتَحْيَت أَنْ تَسْأَلَهُ وَرَجَعَتْ، فَقَالَ: مَا فَعَلْتِ؟ قَالَتْ: اسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَسْأَلَهُ، فَأَتَيْنَاهُ جَمِيعًا، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ سَنَوْتُ حَتَّى اشْتَكَيْتُ صَدْرِي، وَقَالَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: قَدْ طَحَنْتُ حَتَّى مَجَلَتْ يَدَايَ، وَقَدْ جَاءَكَ اللَّهُ بِسَبْيٍ وَسَعَةٍ فَأَخْدِمْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَاللَّهِ لَا أُعْطِيكُمَا وَأَدَعُ أَهْلَ الصُّفَّةِ تَطْوَى بُطُونُهُمْ، لَا أَجِدُ مَا أُنْفِقُ عَلَيْهِمْ، وَلَكِنِّي أَبِيعُهُمْ وَأُنْفِقُ عَلَيْهِمْ أَثْمَانَهُمْ"، فَرَجَعَا، فَأَتَاهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ دَخَلَا فِي قَطِيفَتِهِمَا، إِذَا غَطَّتْ رُءُوسَهُمَا تَكَشَّفَتْ أَقْدَامُهُمَا، وَإِذَا غَطَّيَا أَقْدَامَهُمَا تَكَشَّفَتْ رُءُوسُهُمَا، فَثَارَا، فَقَالَ:" مَكَانَكُمَا"، ثُمَّ قَالَ:" أَلَا أُخْبِرُكُمَا بِخَيْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَانِي؟"، قَالَا: بَلَى، فَقَالَ:" كَلِمَاتٌ عَلَّمَنِيهِنَّ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: تُسَبِّحَانِ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ عَشْرًا، وَتَحْمَدَانِ عَشْرًا، وَتُكَبِّرَانِ عَشْرًا، وَإِذَا أَوَيْتُمَا إِلَى فِرَاشِكُمَا فَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ"، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ عَلَّمَنِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ ابْنُ الْكَوَّاءِ: وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ؟ فَقَالَ: قَاتَلَكُمْ اللَّهُ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ، نَعَمْ، وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ان سے کیا تو ان کے ساتھ جہیز کے طور پر روئیں دار کپڑے، چمڑے کا تکیہ جس میں گھاس بھری ہوئی تھی، دو چکیاں، مشکیزہ اور دو مٹکے بھی روانہ کئے، ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اللہ کی قسم! کنوئیں سے پانی کھینچ کھینچ کر میرے تو سینے میں درد شروع ہو گیا ہے، آپ کے والد صاحب کے پاس کچھ قیدی آئے ہوئے ہیں، ان سے جا کر کسی خادم کی درخواست کیجئے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں: واللہ! چکی چلا چلا کر میرے ہاتھوں میں بھی گٹے پڑ گئے ہیں۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے کی وجہ دریافت فرمائی، انہوں نے عرض کیا کہ سلام کرنے کے لئے حاضر ہوئی تھی، انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی درخواست پیش کرتے ہوئے شرم آئی اور وہ واپس لوٹ آئیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا ہوا؟ فرمایا: مجھے تو ان سے کچھ مانگتے ہوئے شرم آئی اس لئے واپس لوٹ آئی۔ اس کے بعد ہم دونوں اکٹھے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! کنوئیں سے پانی کھینچ کھینچ کر میرے سینے میں درد شروع ہو گیا ہے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں کہ چکی چلا چلا کر میرے بھی ہاتھوں میں گٹے پڑگئے ہیں، آپ کے پاس کچھ قیدی آئے ہوئے ہیں، ان میں سے کوئی ایک بطور خادم کے ہمیں بھی عنایت فرما دیں۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واللہ! میں اہل صفہ کو چھوڑ کر - جن کے پیٹ چپکے پڑے ہوئے ہیں اور ان پر خرچ کرنے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں ہے - تمہیں کوئی خادم نہیں دے سکتا، بلکہ میں انہیں بیچ کر ان کی قیمت اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔ اس پر وہ دونوں واپس چلے آئے، رات کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے، انہوں نے جو چادر اوڑھ رکھی تھی وہ اتنی چھوٹی تھی کہ اگر سر ڈھکتے تھے تو پاؤں کھل جاتے تھے، اور اگر پاؤں ڈھکتے تو سر کھل جاتا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر دونوں اٹھنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کر دیا اور فرمایا کہ ہر نماز کے بعد دس دس مرتبہ سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر کہہ لیا کرو، اور جب بستر پر آیا کرو تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔ (تمہاری ساری تھکاوٹ اور بیماری دور ہوجایا کرے گی)۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان کلمات کی تعلیم دی ہے میں نے انہیں کبھی ترک نہیں کیا۔ ابن کواء کہنے لگا کہ جنگ صفین کے موقع پر بھی نہیں؟ فرمایا: اہل عراق! اللہ تم سے سمجھے، ہاں! صفین کے موقع پر بھی نہیں۔