مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ -- 0
7. مسنَدِ عَلِیِّ بنِ اَبِی طَالِب رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 1207
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَكَانَ" إِذَا شَهِدَ مَشْهَدًا، أَوْ أَشْرَفَ عَلَى أَكَمَةٍ، أَوْ هَبَطَ وَادِيًا، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَقُلْتُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي يَشْكُرَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ حَتَّى نَسْأَلَهُ عَنْ قَوْلِهِ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، رَأَيْنَاكَ إِذَا شَهِدْتَ مَشْهَدًا، أَوْ هَبَطْتَ وَادِيًا، أَوْ أَشْرَفْتَ عَلَى أَكَمَةٍ، قُلْتَ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَهَلْ عَهِدَ رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكَ شَيْئًا فِي ذَلِكَ؟ قَالَ: فَأَعْرَضَ عَنَّا وَأَلْحَحْنَا عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدًا إِلَّا شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَى النَّاسِ، وَلَكِنَّ النَّاسَ وَقَعُوا عَلَى عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَتَلُوهُ، فَكَانَ غَيْرِي فِيهِ أَسْوَأَ حَالًا وَفِعْلًا مِنِّي، ثُمَّ إِنِّي رَأَيْتُ أَنِّي أَحَقُّهُمْ بِهَذَا الْأَمْرِ، فَوَثَبْتُ عَلَيْهِ، فَاللَّهُ أَعْلَمُ أَصَبْنَا أَمْ أَخْطَأْنَا".
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، وہ جب بھی لوگوں کے کسی مجمع کو دیکھتے، یا کسی ٹیلے پر چڑھتے، یا کسی وادی میں اترتے تو فرماتے: «سُبْحَانَ اللّٰهِ، صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ.» میں نے بنو یشکر کے ایک آدمی سے کہا کہ آؤ، ذرا امیر المومنین سے یہ بات پوچھتے ہیں کہ «صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ» سے ان کی کیا مراد ہوتی ہے؟ چنانچہ ہم دونوں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: امیر المومنین! ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ کسی مجمع کو دیکھیں، کسی وادی میں اتریں، یا کسی ٹیلے پر چڑھیں تو آپ «صَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ» کہتے ہیں، کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے آپ کو کچھ بتا رکھا ہے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمارا سوال سن کر اعراض فرمایا، لیکن ہم نے بہت اصرار کیا، جب انہوں نے ہمارا اصرار دیکھا تو فرمایا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی بات بتائی ہے تو وہ لوگوں کو بھی بتائی ہے، لیکن لوگ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پیچھے پڑ گئے یہاں تک کہ انہیں شہید کر کے ہی دم لیا، اب میرے علاوہ دوسرے لوگوں کا حال بھی کچھ بہتر نہ تھا اور کام بھی، پھر میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مجھے خلافت کا حق بھی پہنچتا ہے اس لئے میں اس سواری پر سوار ہو گیا، اب اللہ جانتا ہے کہ ہم نے صحیح کیا یا غلط؟