مسند احمد
مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ -- 0
10. مُسْنَدُ أَبِي إِسْحَاقَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 1539
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: وَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمُتَعَالِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ , وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبِي , حَدَّثَنَا الْمُجَالِدُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ جَاءَتْهُ جُهَيْنَةُ، فَقَالُوا: إِنَّكَ قَدْ نَزَلْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَأَوْثِقْ لَنَا، حَتَّى نَأْتِيَكَ وَتُؤْمِنَّا، فَأَوْثَقَ لَهُمْ، فَأَسْلَمُوا، قَالَ: فَبَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجَبٍ وَلَا نَكُونُ مِائَةً، وَأَمَرَنَا أَنْ نُغِيرَ عَلَى حَيٍّ مِنْ بَنِي كِنَانَةَ إِلَى جَنْبِ جُهَيْنَةَ، فَأَغَرْنَا عَلَيْهِمْ، وَكَانُوا كَثِيرًا فَلَجَأْنَا إِلَى جُهَيْنَةَ، فَمَنَعُونَا، وَقَالُوا: لِمَ تُقَاتِلُونَ فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ؟، فَقُلْنَا إِنَّمَا نُقَاتِلُ مَنْ أَخْرَجَنَا مِنَ الْبَلَدِ الْحَرَامِ، فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ، فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ: مَا تَرَوْنَ؟، فَقَالَ بَعْضُنَا: نَأْتِي نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُخْبِرُهُ، وَقَالَ قَوْمٌ: لَا، بَلْ نُقِيمُ هَاهُنَا، وَقُلْتُ أَنَا فِي أُنَاسٍ مَعِي: لَا، بَلْ نَأْتِي عِيرَ قُرَيْشٍ فَنَقْتَطِعُهَا، فَانْطَلَقْنَا إِلَى الْعِيرِ، وَكَانَ الْفَيْءُ إِذْ ذَاكَ مَنْ أَخَذَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ، فَانْطَلَقْنَا إِلَى الْعِيرِ، وَانْطَلَقَ أَصْحَابُنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ الْخَبَرَ، فَقَامَ غَضْبَانًا مُحْمَرَّ الْوَجْهِ , فَقَالَ:" أَذَهَبْتُمْ مِنْ عِنْدِي جَمِيعًا، وَجِئْتُمْ مُتَفَرِّقِينَ؟ إِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ الْفُرْقَةُ، لَأَبْعَثَنَّ عَلَيْكُمْ رَجُلًا لَيْسَ بِخَيْرِكُمْ أَصْبَرُكُمْ عَلَى الْجُوعِ وَالْعَطَشِ"، فَبَعَثَ عَلَيْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَحْشٍ الْأَسَدِيَّ فَكَانَ أَوَّلَ أَمِيرٍ أُمِّرَ فِي الْإِسْلَامِ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ جہینہ کے لوگ آئے اور کہنے لگے کہ آپ لوگ ہمارے درمیان آکر قیام پذیر ہو گئے ہیں اس لئے ہمیں کوئی وثیقہ لکھ دیجئے تاکہ جب ہم آپ کے پاس آئیں تو آپ پر ہمیں اطمینان ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وثیقہ لکھوا دیا، بعد میں وہ لوگ مسلمان ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد ماہ رجب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روانہ فرمایا، ہماری تعداد سو بھی نہیں ہوگی، اور ہمیں حکم دیا کہ قبیلہ جہینہ کے پہلو میں بنو کنانہ کا ایک قبیلہ آباد ہے، اس پر حملہ کریں، ہم نے ان پر شب خون مارا لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ تھی، چنانچہ ہم نے قبیلہ جہینہ میں پناہ لی لیکن انہوں نے ہمیں پناہ دینے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ تم لوگ اشہر حرم میں قتال کیوں کر رہے ہو؟ ہم نے جواب دیا کہ ہم ان لوگوں سے قتال کر رہے ہیں جنہوں نے ہمیں بلد حرام سے شہر حرام میں نکال کر ان کی حرمت کو ختم کیا تھا۔ پھر ہم آپس میں ایک دوسرے سے مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چل کر انہیں ساری صورت حال سے مطلع کرتے ہیں، بعض لوگوں نے کہا کہ نہیں، ہم یہیں ٹھہریں گے، چند لوگوں کے ساتھ میری رائے یہ تھی کہ ہم لوگ قریش کے قافلے کی طرف چلتے ہیں اور ان پر حملہ کرتے ہیں، چنانچہ لوگ قافلہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس وقت مال غنیمت کا اصول یہ تھا کہ جس کے ہاتھ جو چیز لگ گئی، وہ اس کی ہو گئی، ہم میں سے کچھ لوگوں نے جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر کر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ کر کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو گیا، اور فرمایا کہ تم لوگ میرے پاس سے اکٹھے ہو کر گئے تھے، اور اب جدا جدا ہو کر آ رہے ہو، تم سے پہلے لوگوں کو اسی تفرقہ نے ہی ہلاک کیا تھا، میں تم پر ایک ایسے آدمی کو امیر مقرر کر کے بھیجوں گا جو اگرچہ تم سے زیادہ بہتر نہیں ہوگا لیکن بھوک اور پیاس کی برداشت میں تم سے زیادہ مضبوط ہوگا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن جحش اسدی رضی اللہ عنہ کو امیر بنا کر بھیجا، جو اسلام میں سب سے پہلے امیر تھے۔