مسند احمد
مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ -- 0
13. حَدِیث اَبِی عبَیدَةَ بنِ الجَرَّاحِ وَاسمه عَامِر بن عَبدِ اللَّهِ رَضِیَ اللَّه عَنه ...
0
حدیث نمبر: 1697
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ رَابِّهِ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، كَانَ خَلَفَ عَلَى أُمِّهِ بَعْدَ أَبِيهِ، كَانَ شَهِدَ طَاعُونَ عَمَوَاسَ، قَالَ: لَمَّا اشْتَعَلَ الْوَجَعُ قَامَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي النَّاسِ خَطِيبًا، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ رَحْمَةُ رَبِّكُمْ َدَعْوَةُ نَبِيِّكُمْ، وَمَوْتُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَإِنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ يَسْأَلُ اللَّهَ، أَنْ يَقْسِمَ لَهُ مِنْهُ حَظَّهُ؟ قَالَ: فَطُعِنَ، فَمَاتَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَاسْتُخْلِفَ عَلَى النَّاسِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، فَقَامَ خَطِيبًا بَعْدَهُ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ رَحْمَةُ رَبِّكُمْ، وَدَعْوَةُ نَبِيِّكُمْ، وَمَوْتُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَإِنَّ مُعَاذًا، يَسْأَلُ اللَّهَ، أَنْ يَقْسِمَ لِآلِ مُعَاذٍ مِنْهُ حَظَّهُ؟ قَالَ: فَطُعِنَ ابْنُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُعَاذٍ، فَمَاتَ، ثُمَّ قَامَ، فَدَعَا رَبَّهُ لِنَفْسِهِ، فَطُعِنَ فِي رَاحَتِهِ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، ثُمَّ يُقَبِّلُ ظَهْرَ كَفِّهِ، ثُمَّ يَقُولُ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِمَا فِيكِ شَيْئًا مِنَ الدُّنْيَا، فَلَمَّا مَاتَ اسْتُخْلِفَ عَلَى النَّاسِ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، فَقَامَ فِينَا خَطِيبًا , فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ هَذَا الْوَجَعَ إِذَا وَقَعَ، فَإِنَّمَا يَشْتَعِلُ اشْتِعَالَ النَّارِ، فَتَجَبَّلُوا مِنْهُ فِي الْجِبَالِ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ أَبُو وَاثِلَةَ الْهُذَلِيُّ: كَذَبْتَ وَاللَّهِ لَقَدْ صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتَ شَرٌّ مِنْ حِمَارِي هَذَا، قَالَ وَاللَّهِ مَا أَرُدُّ عَلَيْكَ، مَا تَقُولُ، وَايْمُ اللَّهِ لَا نُقِيمُ عَلَيْهِ، ثُمَّ خَرَجَ وَخَرَجَ النَّاسُ، فَتَفَرَّقُوا عَنْهُ وَدَفَعَهُ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْ رَأْيِ عَمْرٍو، فَوَاللَّهِ مَا كَرِهَهُ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد بْن حَنْبَلٍ: أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ جَدُّ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُشْكُدَانَةَ.
طاعون عمواس کے واقعے کے ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ جب سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی تکلیف شدت اختیار کر گئی تو وہ لوگوں کے سامنے خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے، اور فرمایا: لوگو! یہ تکلیف تمہارے رب کی رحمت، تمہارے نبی کی دعوت اور تم سے پہلے صالحین کی موت رہ چکی ہے، اور ابوعبیدہ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اسے اس میں سے اس کا حصہ عطاء کیا جائے، چنانچہ اسی طاعون کی وباء میں وہ شہید ہوگئے۔ رحمہ اللہ۔ ان کے بعد سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ان کی نیابت سنبھالی اور خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگو! یہ تکلیف تمہارے رب کی رحمت، تمہارے نبی کی دعوت، اور تم سے پہلے صالحین کی موت رہ چکی ہے، اور معاذ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ آل معاذ کو بھی اس میں سے حصہ عطاء کیا جائے، چنانچہ ان کے صاحبزادے عبدالرحمن اس مرض میں مبتلا ہو کر شہید ہو گئے، اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے دوبارہ کھڑے ہو کر اپنے لئے دعا کی، چنانچہ ان کی ہتھیلی میں بھی طاعون کی گلٹی نکل آئی۔ میں نے انہیں دیکھا ہے کہ وہ طاعون کی اس گلٹی کو دیکھتے تھے اور اپنی ہتھیلی کو چومتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ تیرے عوض مجھے پوری دنیا بھی مل جائے تو مجھے خوشی نہ ہوگی۔ بہرحال! وہ بھی شہید ہوگئے، ان کے بعد سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ان کے نائب مقرر ہوئے، انہوں نے کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! یہ تکلیف جب آ جاتی ہے تو آگ کی طرح بھڑکنا شروع ہو جاتی ہے، اس لئے تم اس سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے پہاڑوں میں چلے جاؤ۔ یہ سن کر ابوواثلہ ہذلی کہنے لگے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہونے کے باوجود صحیح بات نہیں کہہ رہے، واللہ! آپ میرے اس گدھے سے بھی زیادہ برے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کی بات کا جواب نہیں دوں گا، لیکن واللہ! ہم اس حالت پر نہیں رہیں گے، چنانچہ وہ اس علاقے سے نکل گئے اور لوگ بھی نکل کر منتشر ہو گئے، اس طرح اللہ نے ان سے اس بیماری کو ٹالا، سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کو یہ فیصلہ کرتے ہوئے دیکھنے والے کسی صاحب نے یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بتائی تو انہوں نے اس پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہ کیا۔