مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم -- 0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 2324
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْهُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ قَابُوسَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِنَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلَ الْجَنَّةَ، فَسَمِعَ مِنْ جَانِب?هَا وَجْسًا، قَالَ:" يَا جِبْرِيلُ مَا هَذَا؟" , قَالَ هَذَا بِلَالٌ الْمُؤَذِّنُ , فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَاءَ إِلَى النَّاسِ:" قَدْ أَفْلَحَ بِلَالٌ، رَأَيْتُ لَهُ كَذَا وَكَذَا" , قَالَ: فَلَقِيَهُ مُوسَى عَلَيْهِ السَلاَمَ، فَرَحَّبَ بِهِ، وَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الْأُمِّيِّ , قَالَ: فَقَالَ:" وَهُوَ رَجُلٌ آدَمُ طَوِيلٌ، سَبْطٌ شَعَرُهُ مَعَ أُذُنَيْهِ، أَوْ فَوْقَهُمَا" , فَقَالَ:" مَنْ هَذَا يَا جِبْرِيلُ؟" , قَالَ هَذَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام , قَالَ: فَمَضَى فَلَقِيَهُ عِيسَى، فَرَحَّبَ بِهِ، وَقَالَ:" مَنْ هَذَا يَا جِبْرِيلُ؟" , قَالَ: هَذَا عِيسَى , قَالَ: فَمَضَى، فَلَقِيَهُ شَيْخٌ جَلِيلٌ مَهِيبٌ، فَرَحَّبَ بِهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ، وَكُلُّهُمْ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ، قَالَ:" مَنْ هَذَا يَا جِبْرِيلُ؟" , قَالَ: هَذَا أَبُوكَ إِبْرَاهِيمُ , قَالَ: فَنَظَرَ فِي النَّارِ، فَإِذَا قَوْمٌ يَأْكُلُونَ الْجِيَفَ، َقَالَ:" مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ؟" , قَالَ: هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ , وَرَأَى رَجُلًا أَحْمَرَ أَزْرَقَ جَعْدًا شَعِثًا إِذَا رَأَيْتَهُ، قَالَ:" مَنْ هَذَا يَا جِبْرِيلُ؟" , قَالَ: هَذَا عَاقِرُ النَّاقَةِ , قَالَ: فَلَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ الْأَقْصَى قَامَ يُصَلِّي، ثُمَّ الْتَفَتَ , فَإِذَا النَّبِيُّونَ أَجْمَعُونَ يُصَلُّونَ مَعَهُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ جِيءَ بِقَدَحَيْنِ، أَحَدُهُمَا عَنِ الْيَمِينِ، وَالْآخَرُ عَنِ الشِّمَالِ، فِي أَحَدِهِمَا لَبَنٌ، وَفِي الْآخَرِ عَسَلٌ، فَأَخَذَ اللَّبَنَ فَشَرِبَ مِنْهُ، فَقَالَ الَّذِي كَانَ مَعَهُ الْقَدَحُ أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جس رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی عظیم سعادت عطا ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں داخل ہوئے اور اس کی ایک جانب ہلکی سی آہٹ سنی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جبرئیل! یہ کیا ہے؟ عرض کیا: یہ آپ کا مؤذن بلال ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کے بعد لوگوں سے فرمایا تھا کہ بلال کامیاب ہو گئے، میں نے ان کے لئے فلاں فلاں چیز دیکھی ہے۔ بہرحال! شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہوئی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا: «مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الْاُمِّيِّ»، وہ گندمی رنگ کے طویل القامت آدمی تھے جن کے بال سیدھے تھے اور کانوں تک یا اس سے اوپر تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جبرئیل! یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں، کچھ اور آگے چلے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جبرئیل! یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ کچھ اور آگے چلے تو ایک بارعب اور جلیل القدر بزرگ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا اور سلام کیا جیسا کہ سب ہی نے سلام کیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جبرئیل! یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ آپ کے والد (جد امجد) حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ اسی سفر معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کو بھی دیکھا، وہاں ایک گروہ نظر آیا جو مردار لاشیں کھا رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے (غیبت کرتے) ہیں، وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سرخ رنگت کا آدمی بھی دیکھا جس کے گھنگھریالے بال تھے، اور اگر تم اسے دیکھو تو وہ پراگندہ معلوم ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جبرئیل یہ کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ حضرت صالح کی اونٹنی کے پاؤں کاٹنے والا بدنصیب ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد اقصی میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے تو وہاں سارے نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو پیالے لائے گئے، ایک دائیں طرف سے اور ایک بائیں طرف سے، ایک میں دودھ تھا اور دوسرے میں شہد، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ والا برتن لے کر دودھ پی لیا، وہ پیالہ لانے والا فرشتہ کہنے لگا کہ آپ نے فطرت سلیمہ کو اختیار کیا۔