مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم -- 0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 2357
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" لَمَّا اجَمَعَ الْقَوْمُ لِغَسْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، وَلَيْسَ فِي الْبَيْتِ إِلَّا أَهْلُهُ: عَمُّهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَالْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ، وَقُثَمُ بْنُ الْعَبَّاسِ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، وَصَالِحٌ مَوْلَاهُ، فَلَمَّا اجَْمَعُوا لِغَسْلِهِ نَادَى مِنْ وَرَاءِ الْبَابِ أَوْسُ بْنُ خَوْلِيِّ الْأَنْصَارِيُّ، ثُمَّ أَحَدُ بَنِي عَوْفِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَكَانَ بَدْرِيًّا، عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ: يَا عَلِيُّ، نَشَدْتُكَ اللَّهَ، وَحَظَّنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: ادْخُلْ , فَدَخَلَ فَحَضَرَ غَسْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَلِ مِنْ غَسْلِهِ شَيْئًا، قَالَ: فَأَسْنَدَهُ إِلَى صَدْرِهِ، وَعَلَيْهِ قَمِيصُهُ، وَكَانَ الْعَبَّاسُ، وَالْفَضْلُ، وَقُثَمُ، يُقَلِّبُونَهُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَصَالِحٌ مَوْلَاهُمَا، يَصُبَّانِ الْمَاءَ، وَجَعَلَ عَلِيٌّ يَغْسِلُهُ، وَلَمْ يُرَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ شَيْءٌ مِمَّا يُراهُ مِنَ الْمَيِّتِ، وَهُوَ يَقُولُ: بِأَبِي وَأُمِّي، مَا أَطْيَبَكَ حَيًّا وَمَيِّتًا! , حَتَّى إِذَا فَرَغُوا مِنْ غَسْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ يُغَسَّلُ بِالْمَاءِ وَالسِّدْرِ، جَفَّفُوهُ، ثُمَّ صُنِعَ بِهِ مَا يُصْنَعُ بِالْمَيِّتِ، ثُمَّ أُدْرِجَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ: ثَوْبَيْنِ أَبْيَضَيْنِ، وَبُرْدِ حِبَرَةٍ , ثُمَّ دَعَا الْعَبَّاسُ رَجُلَيْن، فَقَالَ: لِيَذْهَبْ أَحَدُكُمَا إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاح، وَكَانَ أَبُو عُبَيْدَةَ يَضْرَحُ لِأَهْلِ مَكَّةَ، وَلْيَذْهَبْ الْآخَرُ إِلَى أَبِي طَلْحَةَ بْنِ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيِّ، وَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ يَلْحَدُ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ الْعَبَّاسُ لَهُمَا حِينَ سَرَّحَهُمَا: اللَّهُمَّ خِرْ لِرَسُولِكَ , قَالَ: فَذَهَبَا، فَلَمْ يَجِدْ صَاحِبُ أَبِي عُبَيْدَةَ أَبَا عُبَيْدَةَ، وَوَجَدَ صَاحِبُ أَبِي طَلْحَة أَبَا طَلْحَةَ، فَجَاءَ بِهِ، فَلَحَدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے پر اتفاق رائے ہو گیا، تو اس وقت گھر میں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ ہی تھے، مثلا ان کے چچا سیدنا عباس، سیدنا علی، سیدنا فضل، سیدنا قثم، سیدنا اسامہ بن زید اور سیدنا صالح رضی اللہ عنہم اجمعین، اسی دوران گھر کے دروازے پر کھڑے سیدنا اوس بن خولی انصاری خزرجی بدری رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پکار کر کہا کہ اے علی! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ ہمارا حصہ بھی رکھنا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اند آجاؤ، چنانچہ وہ بھی داخل ہو گئے اور اس موقع پر موجود رہے گو کہ انہوں نے غسل میں شرکت نہیں کی۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے سہارا دیا، جبکہ قمیص جسم پر ہی تھی، سیدنا عباس، سیدنا فضل اور سیدنا قثم رضی اللہ عنہم پہلو مبارک بدل رہے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان کا ساتھ دے رہے تھے، سیدنا اسامہ اور سیدنا صالح رضی اللہ عنہما پانی ڈال رہے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ غسل دے رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی چیز ظاہر نہیں ہوئی جو میت کی ظاہر ہوا کرتی ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ غسل دیتے ہوئے کہتے جارہے تھے: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ حیا و میتا کتنے پاکیزہ رہے۔ یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل پانی اور بیری سے دیا گیا تھا۔ غسل سے فراغت کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کو خشک کیا، پھر وہی کیا جو میت کے ساتھ کیا جاتا ہے، یعنی انہیں تین کپڑوں میں لپیٹ دیا گیا جن میں سے دو سفید تھے اور ایک دھاری دار سرخ یمنی چادر تھی، پھر معلوم ہوا کہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ صندوقی قبر بناتے ہیں جیسے اہل مکہ، اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ - جن کا اصل نام زید بن سہل تھا - اہل مدینہ کے لئے بغلی قبر بناتے ہیں، تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے دو آدمیوں کو بلایا، ایک کو سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور دوسرے کو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس، اور دعا کی کہ اے اللہ! اپنے پیغمبر کے لئے جو بہتر ہو اسی کو پسند فرما لے، چنانچہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس جانے والے آدمی کو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مل گئے اور وہ انہی کو لے کر آ گیا، اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بغلی قبر تیار کی گئی۔