مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم -- 0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 2370
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى قَيْصَرَ يَدْعُوهُ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَبَعَثَ كِتَابَهُ مَعَ دِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ، وَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، لِيَدْفَعَهُ إِلَى قَيْصَرَ، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إلى قيصر، وَكَانَ قَيْصَرُ لَمَّا كَشَفَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهُ جُنُودَ فَارِسَ، مَشَى مِنْ حِمْصَ إِلَى إِيلْيَاءَ عَلَى الزَّرَابِيِّ تُبْسَطُ لَهُ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: فَلَمَّا جَاءَ قَيْصَرَ كِتَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ حِينَ قَرَأَهُ: الْتَمِسُوا لِي مِنْ قَوْمِهِ مَنْ أَسْأَلُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَأَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ أَنَّهُ كَانَ بِالشَّامِ فِي رِجَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدِمُوا تُجَّارًا، وَذَلِكَ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَأَتَانِي رَسُولُ قَيْصَرَ، فَانْطَلَقَ بِي وَبِأَصْحَابِي، حَتَّى قَدِمْنَا إِيلْيَاءَ، فَأُدْخِلْنَا عَلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ فِي مَجْلِسِ مُلْكِهِ، عَلَيْهِ التَّاجُ، وَإِذَا حَوْلَهُ عُظَمَاءُ الرُّومِ، فَقَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: سَلْهُمْ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا بِهَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: أَنَا أَقْرَبُهُمْ إِلَيْهِ نَسَبًا , قَالَ: مَا قَرَابَتُكَ مِنْه؟ قَالَ: قُلْتُ: هُوَ ابْنُ عَمِّي , قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَلَيْسَ فِي الرَّكْبِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ غَيْرِي، قَالَ: فَقَالَ قَيْصَرُ: أَدْنُوهُ مِنِّي , ثُمَّ أَمَرَ بِأَصْحَابِي، فَجُعِلُوا خَلْفَ ظَهْرِي عِنْدَ كَتِفِي، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لِأَصْحَابِهِ: إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنِ الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، فَإِنْ كَذَبَ، فَكَذِّبُوهُ , قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَوَاللَّهِ لَوْلَا الِاسْتِحْيَاءُ يَوْمَئِذٍ أَنْ يَأْثُرَ أَصْحَابِي عَنِّي الْكَذِبَ لَكَذَبْتُهُ حِينَ سَأَلَنِي، وَلَكِنِّي اسْتَحَيْتُ أَنْ يأْثَرواَ عَنِّي الْكَذِبُ، فَصَدَقْتُهُ عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُ: كَيْفَ نَسَبُ هَذَا الرَّجُلِ فِيكُمْ؟ قَالَ: قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَطُّ قَبْلَهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا , قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ فِي الْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: لَا , قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا , قَالَ: فَأَشْرَافُ النَّاسِ اتَّبَعُوهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ , قَالَ: فَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلْ يَزِيدُونَ , قَالَ: فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا , قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا , وَنَحْنُ الْآنَ مِنْهُ فِي مُدَّة، وَنَحْنُ نَخَافُ ذَلِكَ , قَالَ: قال أَبُو سُفْيَانَ: وَلَمْ تُمْكِنِّي كَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا أَنْتَقِصُهُ بِهِ غَيْرُهَا، لا أَخَافُ أَنْ يُؤْثَرَ عَنِّي، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ أَوْ قَاتَلَكُمْ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَم , قَال: كَيْفَ كَانَتْ حَرْبُكُمْ وَحَرْبُهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: كَانَتْ دُوَلًا سِجَالًا نُدَالُ عَلَيْهِ الْمَرَّةَ، وَيُدَالُ عَلَيْنَا الْأُخْرَى , قَالَ: فَبِمَ يَأْمُرُكُمْ، قَالَ: قُلْتُ: يَأْمُرُنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَانَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ، وَالصِّدْقِ، وَالْعَفَافِ، وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ , قَالَ: فَقَالَ لِتَرْجُمَانِهِ حِينَ قُلْتُ لَهُ ذَلِكَ: قُلْ لَهُ: إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ نَسَبِهِ فِيكُمْ، فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو نَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا , وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَطُّ قَبْلَهُ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ أَحَدٌ مِنْكُمْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ، قُلْتُ: رَجُلٌ يَأْتَمُّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ , وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَذَرَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ، وَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَسَأَلْتُكَ: هَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِكٍ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، فَقُلْتُ: لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ، قُلْتُ: رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ , وَسَأَلْتُكَ: أَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّ ضُعَفَاءَهُمْ اتَّبَعُوهُ، وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ , وَسَأَلْتُكَ: هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ , وَسَأَلْتُكَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ يُخَالِطُ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ لَا يَسْخَطُهُ أَحَدٌ , وَسَأَلْتُكَ: هَلْ يَغْدِرُ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ , وَسَأَلْتُكَ: هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ وَقَاتَلَكُمْ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ قَدْ فَعَلَ، وَأَنَّ حَرْبَكُمْ وَحَرْبَهُ يَكُونُ دُوَلًا، يُدَالُ عَلَيْكُمْ الْمَرَّةَ، وَتُدَالُونَ عَلَيْهِ الْأُخْرَى، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى، وَيَكُونُ لَهَا الْعَاقِبَةُ , وَسَأَلْتُكَ: بِمَاذَا يَأْمُرُكُمْ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَحْدَهُ لَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَاكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُكُمْ، وَيَأْمُرُكُمْ بِالصِّدْقِ، وَالصَّلَاةِ، وَالْعَفَافِ، وَالْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ، وَهَذِهِ صِفَةُ نَبِيٍّ قَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ، وَلَكِنْ لَمْ أَظُنَّ أَنَّهُ مِنْكُمْ , فَإِنْ يَكُنْ مَا قُلْتَ فِيهِ حَقًّا، فَيُوشِكُ أَنْ يَمْلِكَ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ، وَاللَّهِ لَوْ أَرْجُو أَنْ أَخْلُصَ إِلَيْه، لَتَجَشَّمْتُ لُقِيَّهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ، لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ , قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ بِهِ، فَقُرِئَ، فَإِذَا فِيهِ:" بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، سَلَامٌ عَلَى مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ , أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَعَلَيْكَ إِثْمُ الْأَرِيسِيِّينَ يَعْنِي: الْأَكَّارَةَ , وَ يَأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ سورة آل عمران آية 64" , قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَلَمَّا قَضَى مَقَالَتَهُ، عَلَتْ أَصْوَاتُ الَّذِينَ حَوْلَهُ مِنْ عُظَمَاءِ الرُّومِ، وَكَثُرَ لَغَطُهُمْ، فَلَا أَدْرِي مَاذَا قَالُوا، وَأَمَرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَلَمَّا خَرَجْتُ مَعَ أَصْحَابِي وَخَلَصْتُ لَهُمْ، قُلْتُ لَهُمْ: أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ، هَذَا مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ يَخَافُهُ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ ذَلِيلًا مُسْتَيْقِنًا أَنَّ أَمْرَهُ سَيَظْهَرُ، حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ قَلْبِي الْإِسْلَامَ، وَأَنَا كَارِهٌ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کو ایک خط لکھا جس میں اسے اسلام کی دعوت دی، اور یہ خط دے کر سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا، اور انہیں یہ حکم دیا کہ یہ خط بصرہ کے گورنر تک پہنچا دینا تاکہ وہ قیصر کے پاس اس خط کو بھجوا دے، چنانچہ بصرہ کے گورنر نے وہ خط قیصر روم تک پہنچا دیا، قیصر کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے ایرانی لشکروں پر فتح یابی عطا فرمائی تھی اس لئے وہ اس کی خوشی میں شکرانے کے طور پر حمص سے بیت المقدس تک پیدل سفر طے کر کے آیا ہوا تھا، اس سفر میں اس کے لئے راستے بھر قالین بچھائے گئے تھے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب قیصر کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ملا تو اس نے وہ خط پڑھ کر کہا کہ ان کی قوم کا کوئی آدمی تلاش کر کے لاؤ تاکہ میں اس سے کچھ سوالات پوچھ سکوں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حرب نے مجھ سے بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم) نے ان کے پاس ایک آدمی بھیجا (اور وہ) قریش کے چند سواروں میں (اس وقت بیٹھے ہوئے تھے) اور وہ لوگ شام میں تاجر (بن کر گئے) تھے (اور یہ واقعہ) اس زمانہ میں (ہوا ہے) جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان اور کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا۔ چنانچہ قریش ہرقل کے پاس آئے اور یہ لوگ (اس وقت) ایلیا میں تھے، تو ہرقل نے ان کو اپنے دربار میں طلب کیا اور اس کے گرد سرداران روم (بیٹھے ہوئے تھے) پھر ان (سب قریشیوں کو) اس نے (اپنے قریب) بلایا اور اپنے ترجمان کو طلب کیا اور (قریشیوں سے مخاطب ہو کر) کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے، جو اپنے کو نبی کہتا ہے؟ سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں ان میں سب سے زیادہ (ان کا) قریب النسب ہوں، (یہ سن کر) ہرقل نے کہا کہ ابوسفیان کو میرے قریب کر دو اور اس کے ساتھیوں کو (بھی) قریب رکھو اور ان کو ابوسفیان کے پس پشت (کھڑا) کرو، پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابوسفیان سے اس مرد کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے کو نبی کہتا ہے) پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بیان کرے تو تم (فورا) اس کی تکذیب کر دینا (ابوسفیان کہتے ہیں کہ) اللہ کی قسم! اگر (مجھے) اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے، تو یقینا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت غلط باتیں بیان کر دیتا۔ غرض سب سے پہلے جو ہرقل نے مجھ سے پوچھا وہ یہ تھا کہ ان کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں (بڑے) نسب والے ہیں۔ (پھر) ہرقل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے ان سے پہلے بھی اس بات (یعنی نبوت) کا دعوی کیا ہے؟ میں نے کہا: نہیں، (پھر) ہرقل نے کہا کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ میں نے کہا: نہیں، (پھر) ہرقل نے کہا کہ بااثر لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے؟ میں نے کہا: (امیروں نے نہیں بلکہ) کمزور لوگوں نے۔ (پھر) ہرقل بولا کہ آیا ان کے پیرو (دن بہ دن) بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا: (کم نہیں ہوتے بلکہ) زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ آیا ان (لوگوں) میں سے (کوئی) ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے بدظن ہو کر منحرف بھی ہو جاتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ کیا وہ (کبھی) وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں، اور اب ہم ان کی طرف سے مہلت میں ہیں، ہم نہیں جانتے کہ وہ اس (مہلت کے زمانہ) میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا وعدہ وفائی)، ابوسفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے اور مجھے قابو نہیں ملا کہ میں کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں داخل کر دیتا۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ کیا تم نے (کبھی) اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں، تو (ہرقل) بولا: تمہاری جنگ اس سے کیسی رہتی ہے؟ میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول (کے مثل) رہتی ہے کہ (کبھی) وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور (کبھی) ہم ان سے لے لیتے ہیں (یعنی کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ)۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کی عبادت کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (شرکیہ باتیں و عبادتیں) جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، سب چھوڑ دو، اور ہمیں نماز (پڑھنے) اور سچ بولنے اور پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہو کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں (اعلی) نسب والے ہیں، چنانچہ تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی طرح (اعلی نسب) مبعوث ہوا کرتے ہیں۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (یعنی اپنی نبوت کی خبر) تم میں سے کسی اور نے بھی ان سے پہلے کہی تھی؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔ میں نے (اپنے دل میں) یہ کہا تھا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہو تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک ایسے آدمی ہیں جو اس کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ تھا؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں! پس میں نے (اپنے دل میں) کہا تھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہوگا تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک (اقتدار حاصل کرنا) چاہتے ہیں، اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انہوں نے جو یہ بات (نبوت کا دعوی) کہی ہے، کہیں تم ان پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ تو تم نے کہا کہ نہیں، پس (اب) میں یقینا جانتا ہوں کہ (کوئی شخص) ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں سے جھوٹ بولنا (غلط بیانی) چھوڑ دے اور اللہ پر جھوٹ بولے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے (بااثر) لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے؟ تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے، اور (دراصل) تمام پیغمبروں کے پیرو یہی لوگ (ہوتے رہے) ہیں، اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم؟ تو تم نے بیان کیا کہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ اور (درحقیقت) ایمان کا یہی حال (ہوتا) ہے تاوقتیکہ کمال کو پہنچ جائے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص بعد اس کے کہ ان کے دین میں داخل ہو جائے، ان کے دین سے ناخوش ہو کر (دین سے) پھر بھی جاتا ہے؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں! اور ایمان (کا حال) ایسا ہی ہے جب اس کی بشاشت دلوں میں رچ بس جائے (تو پھر نہیں نکلتی)، اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں! اور (بات یہ ہے کہ) اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو نیز تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز (پڑھنے)، سچ بولنے اور پرہیزگاری (اختیار کرنے) کا حکم دیتے ہیں۔ پس اگر جو تم کہتے ہو سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور بےشک میں (کتب سابقہ کی پیش گوئی سے) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں، مگر میں یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے۔ پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام و سعی کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقینا میں ان کے قدموں کو دھوتا۔ پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (مقدس) خط منگوایا (اور اس کو پڑھوایا) تو اس میں (یہ مضمون) تھا: اللہ نہایت مہربان، رحم والے کے نام سے (یہ خط ہے)، اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بادشاہ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ بعد اس کے (واضح ہو کہ) میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اسلام لاؤ گے تو (قہر الہی سے) بچ جاؤ گے اور اللہ تمہیں تمہارا ثواب دو گنا دے گا اور اگر تم (میری دعوت سے) منہ پھیروگے تو بلاشبہ تم پر (تمہاری) تمام رعیت کے (ایمان نہ لانے کا) گناہ ہوگا اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے، یعنی یہ کہ ہم اور تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو سوائے اللہ کے پروردگار بنائے، پھر اگر اہل کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دینا کہ اس بات کے گواہ رہو کہ ہم تو اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا، کہہ چکا اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا) خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے ہاں بہت ہی شور مچنے لگا، آوازیں بلند ہوئیں اور ہم لوگ (وہاں سے) نکال دیئے گئے، تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا، جب کہ ہم باہر کر دیئے گئے کہ (دیکھو تو) ابوکبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ و رتبہ ایسا بڑھ گیا کہ اس سے بنو اصفر (روم) کا بادشاہ بھی خوف کھاتا ہے۔ پس ہمیشہ میں اس کا یقین رکھتا رہا کہ وہ عنقریب غالب ہو جائیں گے یہاں تک کہ اللہ نے مجھے زبردستی مشرف بہ اسلام کر دیا۔