مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم -- 0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 2495
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، فِي قَوْلِهِ: الم غُلِبَتِ الرُّومُ سورة الروم آية 1 - 2 , قَالَ: غُلِبَتْ وَغَلَبَتْ، قَالَ: كَانَ الْمُشْرِكُونَ يُحِبُّونَ أَنْ تَظْهَرَ فَارِسُ عَلَى الرُّومِ، لِأَنَّهُمْ أَهْلُ أَوْثَانٍ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ أَنْ تَظْهَرَ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ، لِأَنَّهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ، فَذَكَرُوهُ لِأَبِي بَكْرٍ فَذَكَرَهُ أَبُو بَكْرٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنَّهُمْ سَيَغْلِبُونَ" , قَالَ: فَذَكَرَهُ أَبُو بَكْرٍ لَهُمْ، فَقَالُوا: اجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ أَجَلًا، فَإِنْ ظَهَرْنَا، كَانَ لَنَا كَذَا وَكَذَا، وَإِنْ ظَهَرْتُمْ، كَانَ لَكُمْ كَذَا وَكَذَا , فَجَعَلَ أَجَلًا خَمْسَ سِنِينَ، فَلَمْ يَظْهَرُوا، فَذَكَرَ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَلَا جَعَلْتَهَا إِلَى دُونَ، قَالَ: أُرَاهُ قَالَ: الْعَشْرِ؟" , قَالَ: قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ الْبِضْعُ مَا دُونَ الْعَشْرِ، ثُمَّ ظَهَرَتْ الرُّومُ بَعْدُ، قَالَ: فَذَلِكَ قَوْلُهُ: الم غُلِبَتِ الرُّومُ إِلَى قَوْلِهِ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ سورة الروم آية 1 - 4 , قَالَ: يَفْرَحُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ سورة الروم آية 5.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما «‏‏‏‏﴿الم o غُلِبَتِ الرُّومُ﴾» ‏‏‏‏ کو معروف اور مجہول دونوں طرح سے پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ مشرکین کی ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ اہل فارس اہل روم پر غالب آ جائیں، کیونکہ اہل فارس بت پرست تھے، جبکہ مسلمانوں کی خواہش یہ تھی کہ رومی فارسیوں پر غالب آ جائیں کیونکہ وہ اہل کتاب تھے، انہوں نے یہ بات سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ذکر کی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رومی ہی غالب آئیں گے. سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قریش کے سامنے یہ پیشین گوئی ذکر کر دی، وہ کہنے لگے کہ آپ ہمارے اور اپنے درمیان ایک مدت مقرر کر لیں، اگر ہم یعنی ہمارے خیال کے مطابق فارسی غالب آ گئے تو آپ ہمیں اتنا اتنا دیں گے، اور اگر آپ یعنی آپ کے خیال کے مطابق رومی غالب آ گئے تو ہم آپ کو اتنا اتنا دیں گے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پانچ سال کی مدت مقرر کر لی، لیکن اس دوران رومی غالب ہوتے ہوئے دکھائی نہ دئیے تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چیز کا تذکرہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ نے دس سال کے اندر اندر کی مدت کیوں نہ مقرر کی؟ سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ دراصل قرآن میں «﴿بِضْعِ﴾» کا جو لفظ آیا ہے اس کا اطلاق دس سے کم پر ہوتا ہے، چنانچہ اس عرصے میں رومی غالب آ گئے اور سورہ روم کی ابتدائی آیات کا یہی پس منظر ہے۔