مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم -- 0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 2496
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خُثَيْمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ ذَكْوَانُ حَاجِبُ عَائِشَةَ , أَنَّهُ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَى عَائِشَةَ، فَجِئْتُ، وَعِنْدَ رَأْسِهَا ابْنُ أَخِيهَا عَبْدُ اللَّهِ بِنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقُلْتُ: هَذَا ابْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَأْذِنُ , فَأَكَبَّ عَلَيْهَا ابْنُ أَخِيهَا عَبْدُ اللَّهِ، فَقَالَ: هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَأْذِنُ وَهِيَ تَمُوتُ، فَقَالَتْ: دَعْنِي مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ , فَقَالَ: يَا أُمَّتَاهُ، إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ صَالِحِي بَنِيكِ، لِيُسَلِّمْ عَلَيْكِ، وَيُوَدِّعْكِ , فَقَالَتْ: ائْذَنْ لَهُ إِنْ شِئْتَ , قَالَ: فَأَدْخَلْتُهُ، فَلَمَّا جَلَسَ، قَالَ: أَبْشِرِي , فَقَالَتْ: أَيْضًا! فَقَالَ:" مَا بَيْنَكِ، وَبَيْنَ أَنْ تَلْقَيْ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَحِبَّةَ، إِلَّا أَنْ تَخْرُجَ الرُّوحُ مِنَ الْجَسَدِ، كُنْتِ أَحَبَّ نِسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ إِلَّا طَيِّبًا، وَسَقَطَتْ قِلَادَتُكِ لَيْلَةَ الْأَبْوَاءِ، فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يُصْبِحَ فِي الْمَنْزِلِ، وَأَصْبَحَ النَّاسُ لَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا سورة النساء آية 43 , فَكَانَ ذَلِكَ فِي سَبَبِكِ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ مِنَ الرُّخْصَةِ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ بَرَاءَتَكِ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ، جَاءَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ، فَأَصْبَحَ لَيْسَ لِلَّهِ مَسْجِدٌ مِنْ مَسَاجِدِ اللَّهِ يُذْكَر فِيهُِ اللَّهُ، إِلَّا يُتْلَى فِيهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ , فَقَالَتْ: دَعْنِي مِنْكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا".
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مرض الوفات میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے اندر آنے کی اجازت مانگی، ان کے پاس ان کے بھتیجے تھے، میں نے ان کے بھتیجے سے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں، ان کے بھتیجے نے جھک کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا، وہ کہنے لگیں کہ رہنے دو (مجھ میں ہمت نہیں ہے)، اس نے کہا: اماں جان! ابن عباس تو آپ کے بڑے نیک فرزند ہیں، وہ آپ کو سلام کرنا اور رخصت کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے اجازت دے دی، انہوں نے اندر آ کر کہا کہ خوشخبری ہو، آپ کے اور دیگر ساتھیوں کے درمیان ملاقات کا صرف اتنا ہی وقت باقی ہے جس میں روح جسم سے جدا ہو جائے، آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ محبوب رہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی چیز کو محبوب رکھتے تھے جو طیب ہو، لیلۃ الابواء کے موقع پر آپ کا ہار ٹوٹ کر گر پڑا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پڑاؤ کر لیا لیکن صبح ہوئی تو مسلمانوں کے پاس پانی نہیں تھا، اللہ نے آپ کی برکت سے پاک مٹی کے ساتھ تیمم کرنے کا حکم نازل فرما دیا، جس میں اس امت کے لئے اللہ نے رخصت نازل فرما دی، اور آپ کی شان میں قرآن کریم کی آیات نازل ہو گئی تھیں، جو سات آسمانوں کے اوپر سے حضرت جبرئیل علیہ السلام لے کر آئے، اب مسلمانوں کی کوئی مسجد ایسی نہیں ہے جہاں پر دن رات آپ کے عذر کی تلاوت نہ ہوتی ہو، یہ سن کر وہ فرمانے لگیں: اے ابن عباس! اپنی ان تعریفوں کو چھوڑو، واللہ! میری تو خواہش ہے کہ میں بھولی بسری داستان بن چکی ہوتی۔