مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم -- 0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 2609
(حديث مرفوع) حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: مَا نَصَرَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي مَوْطِنٍ، كَمَا نَصَرَ يَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: فَأَنْكَرْنَا ذَلِكَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَيْنِي وَبَيْنَ مَنْ أَنْكَرَ ذَلِكَ كِتَابُ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى , إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ فِي يَوْمِ أُحُدٍ: وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ سورة آل عمران آية 152 , يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَالْحَسُّ: الْقَتْلُ , حَتَّى إِذَا فَشِلْتُمْ إِلَى قَوْلِهِ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سورة آل عمران آية 152 , وَإِنَّمَا عَنَى بِهَذَا الرُّمَاةَ، وَذَلِكَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَامَهُمْ فِي مَوْضِعٍ، ثُمَّ قَالَ:" احْمُوا ظُهُورَنَا، فَإِنْ رَأَيْتُمُونَا نُقْتَلُ، فَلَا تَنْصُرُونَا، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا قَدْ غَنِمْنَا فَلَا تَشْرَكُونَا" , فَلَمَّا غَنِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَاحُوا عَسْكَرَ الْمُشْرِكِينَ، أَكَبَّ الرُّمَاةُ جَمِيعًا، فَدَخَلُوا فِي الْعَسْكَرِ يَنْهَبُونَ، وَقَدْ الْتَقَتْ صُفُوفُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَهُمْ هكَذَا، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدَيْهِ، وَالْتَبَسُوا، فَلَمَّا أَخَلَّ الرُّمَاةُ تِلْكَ الْخَلَّةَ الَّتِي كَانُوا فِيهَا، دَخَلَتْ الْخَيْلُ مِنْ ذَلِكَ الْمَوْضِعِ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَضَرَبَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، وَالْتَبَسُوا، وَقُتِلَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ نَاسٌ كَثِيرٌ، وَقَدْ كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ أَوَّلُ النَّهَارِ، حَتَّى قُتِلَ مِنْ أَصْحَابِ لِوَاءِ الْمُشْرِكِينَ سَبْعَةٌ، أَوْ تِسْعَةٌ، وَجَالَ الْمُسْلِمُونَ جَوْلَةً نَحْوَ الْجَبَلِ، وَلَمْ يَبْلُغُوا حَيْثُ يَقُولُ النَّاسُ الْغَارَ، إِنَّمَا كَانُوا تَحْتَ الْمِهْرَاسِ، وَصَاحَ الشَّيْطَانُ: قُتِلَ مُحَمَّدٌ، فَلَمْ يُشَكَّ فِيهِ أَنَّهُ حَقٌّ، فَمَا زِلْنَا كَذَلِكَ مَا نَشُكُّ أَنَّهُ قَدْ قُتِلَ، حَتَّى طَلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ السَّعْدَيْنِ نَعْرِفُهُ بِتَكَفُّئِهِ إِذَا مَشَى، قَالَ: فَفَرِحْنَا كَأَنَّهُ لَمْ يُصِبْنَا مَا أَصَابَنَا، قَالَ: فَرَقِيَ نَحْوَنَا، وَهُوَ يَقُولُ:" اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ دَمَّوْا وَجْهَ رَسُولِهِ" , قَالَ: وَيَقُولُ مَرَّةً أُخْرَى:" اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يَعْلُونَا" , حَتَّى انْتَهَى إِلَيْنَا , فَمَكَثَ سَاعَةً، فَإِذَا أَبُو سُفْيَانَ يَصِيحُ فِي أَسْفَلِ الْجَبَلِ: اعْلُ هُبَلُ مَرَّتَيْنِ يَعْنِي: آلِهَتَهُ، أَيْنَ ابْنُ أَبِي كَبْشَةَ؟ أَيْنَ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ؟ أَيْنَ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أُجِيبُهُ؟ قَالَ:" بَلَى" , فَلَمَّا قَالَ: اعْلُ هُبَلُ، قَالَ عُمَرُ: اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ , قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّهُ قَدْ أَنْعَمَتْ عَيْنُهَا، فَعَادِ عَنْهَا أَوْ فَعَالِ عَنْهَا، فَقَالَ: أَيْنَ ابْنُ أَبِي كَبْشَةَ؟ أَيْنَ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ؟ أَيْنَ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذَا أَبُو بَكْرٍ، وَهَأَنَا ذَا عُمَرُ , قَالَ: فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ، الْأَيَّامُ دُوَلٌ، وَإِنَّ الْحَرْبَ سِجَالٌ , قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: لَا سَوَاءً، قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ، وَقَتْلَاكُمْ فِي النَّارِ , قَالَ: إِنَّكُمْ لَتَزْعُمُونَ ذَلِكَ، لَقَدْ خِبْنَا إِذَنْ وَخَسِرْنَا، ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: أَمَا إِنَّكُمْ سَوْفَ تَجِدُونَ فِي قَتْلَاكُمْ مُثْلًي، وَلَمْ يَكُنْ ذَاكَ عَنْ رَأْيِ سَرَاتِنَا , قَالَ: ثُمَّ أَدْرَكَتْهُ حَمِيَّةُ الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَ: فَقَالَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَانَ ذَاكَ , وَلَمْ يَكْرَهُّه.
عبیداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ جس طرح اللہ نے جنگ احد کے موقع پر مسلمانوں کی مدد کی، کسی اور موقع پر اس طرح مدد نہیں فرمائی، ہمیں اس پر تعجب ہوا تو وہ فرمانے لگے کہ میری بات پر تعجب کرنے والوں اور میرے درمیان اللہ کی کتاب فیصلہ کرے گی، اللہ تعالیٰ غزوہ احد کے حوالے سے فرماتے ہیں: «﴿وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ﴾ [آل عمران: 152] » اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا جب تم اس کے حکم سے انہیں قتل کر رہے تھے۔ (لفظ «حس» کا معنی قتل ہے) اور اس سے مراد تیر انداز ہیں۔ اصل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازوں کو ایک جگہ پر کھڑا کیا تھا اور ان سے فرما دیا تھا کہ تم لوگ پشت کی طرف سے ہماری حفاظت کرو گے، اگر تم ہمیں قتل ہوتا ہوا بھی دیکھو تو ہماری مدد کو نہ آنا، اور اگر ہمیں مال غنیمت اکٹھا کرتے ہوئے دیکھو تب بھی ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غنیم پر فتح اور مال غنیمت حاصل ہوا اور مسلمان مشرکین کے لشکر پر پل پڑے تو وہ تیر انداز بھی اپنی جگہ چھوڑ کر مشرکین کے لشکر میں داخل ہو گئے اور مال غنیمت جمع کرنا شروع کر دیا، یوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صفیں آپس میں یوں مل گئیں، راوی نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کر کے دکھائیں، اور یہ لوگ خلط ملط ہو گئے۔ ادھر جب تیر اندازوں کی جگہ خالی ہو گئی تو وہیں سے کفار کے گھوڑے اتر اتر کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف بڑھنے لگے، لوگ ایک دوسرے کو مارنے لگے اور انہیں التباس ہونے لگا، اس طرح بہت سے مسلمان شہید ہو گئے، حالانکہ میدان صبح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کے ہاتھ رہا تھا اور مشرکین کے سات یا نو علمبردار بھی مارے گئے تھے۔ بہرحال! مسلمان پہاڑ کی طرف گھوم کر پلٹے لیکن وہ اس غار تک نہ پہنچ سکے جو لوگ کہہ رہے تھے، وہ محض ایک ہاون دستہ نما چیز کے نیچے رہ گئے تھے، دوسری طرف شیطان نے یہ افواہ پھیلا دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے، کسی کو اس کے صحیح ہونے میں شک تک نہ ہوا، ابھی ہماری یہی کیفیت تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سعد نامی دو صحابہ رضی اللہ عنہما کے درمیان طلوع ہوئے، ہم نے انہیں ان کی چال ڈھال سے پہچان لیا، ہم بہت خوش ہوئے اور ایسی خوشی محسوس ہوئی کہ گویا ہمیں کوئی تکلیف پہنچی ہی نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف چڑھنے لگے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے کہ اس قوم پر اللہ کا بڑا سخت غضب نازل ہوگا جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خون آلود کر دیا، پھر فرمایا: اے اللہ! یہ ہم پر غالب نہ آنے پائیں، یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم تک پہنچ گئے۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ابوسفیان کی آواز پہاڑ کے نیچے سے آئی جس میں وہ اپنے معبود ہبل کی جے کاری کے نعرے لگا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ابن ابی کبشہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کہاں ہیں؟ ابن ابی قحافہ (سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) کہاں ہیں؟ ابن خطاب (سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ) کہاں ہیں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اسے جواب نہ دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، چنانچہ جب ابوسفیان نے ہبل کی جے ہو کا نعرہ لگایا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور فرمایا: اللہ بلند و برتر ہو اور بزرگی والا ہو، ابوسفیان کہنے لگا: اے ابن خطاب! تم ہبل سے دشمنی کرو یا دوستی، اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں، پھر کہنے لگا کہ ابن ابی کبشہ، ابن ابی قحافہ اور ابن خطاب کہاں ہیں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، یہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود ہیں اور یہ میں ہوں عمر۔ ابوسفیان نے کہا کہ یہ جنگ بدر کا انتقام ہے، جن کی مثال ڈول کی طرح ہے اور جنگ بھی ڈول کی طرح ہوتی ہے (جو کبھی کسی کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور کبھی کسی کے)، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس میں بھی برابری نہیں، ہمارے مقتول جنت میں ہوں گے اور تمہارے مقتول جہنم میں، ابوسفیان نے کہا کہ یہ تمہارا خیال ہے، اگر ایسا ہو تو یقینا ہم نقصان اور گھاٹے میں رہے، پھر اس نے کہا کہ مقتولین میں تمہیں کچھ لاشیں ایسی بھی ملیں گی جن کے ناک کان کاٹ لئے گئے ہیں، یہ ہمارے سرداروں کے مشورے سے نہیں ہوا، پھر اسے جاہلیت کی حمیت نے گھیر لیا اور وہ کہنے لگا کہ بہرحال! ایسا ہوا ہے، گویا اس نے اسے ناپسند نہیں سمجھا۔