مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم -- 0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 2692
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ، مِنْبَرِ الْبَصْرَةِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ إِلَّا لَهُ دَعْوَةٌ تَنَجَّزَهَا فِي الدُّنْيَا، وَإِنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي، وَأَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُ عَنْهُ الْأَرْضُ، وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ، وَلَا فَخْرَ، آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ تَحْتَ لِوَائِي , قَالَ: وَيَطُولُ يَوْمُ الْقِيَامَةِ عَلَى النَّاسِ، حَتَّى يَقُولَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: انْطَلِقُوا بِنَا إِلَى آدَمَ أَبِي الْبَشَرِ، فَيَشْفَعَ لَنَا إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا , فَيَأْتُونَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَيَقُولُونَ: يَا آدَمُ , أَنْتَ الَّذِي خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَأَسْكَنَكَ جَنَّتَهُ، وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا , فَيَقُولُ: إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ، إِنِّي قَدْ أُخْرِجْتُ مِنَ الْجَنَّةِ بِخَطِيئَتِي، وَإِنَّهُ لَا يُهِمُّنِي الْيَوْمَ إِلَّا نَفْسِي، وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا رَأْسَ النَّبِيِّينَ , فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا , فَيَقُولُ: إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ، إِنِّي قَدْ دَعَوْتُ دَعْوَةً غَرَّقَتْ أَهْلَ الْأَرْضِ، وَإِنَّهُ لَا يُهِمُّنِي الْيَوْمَ إِلَّا نَفْسِي، وَلَكِنْ ائْتُوا إِبْرَاهِيمَ خَلِيلَ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَام , قَالَ: فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: يَا إِبْرَاهِيمُ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا , فَيَقُولُ: إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ، إِنِّي قَدْ كَذَبْتُ فِي الْإِسْلَامِ ثَلَاثَ كِذْبَاتٍ، وَإِنَّهُ لَا يُهِمُّنِي الْيَوْمَ إِلَّا نَفْسِي , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ حَاوَلَ بِهِنَّ إِلَّا عَنْ دِينِ اللَّهِ، قَوْلُهُ: إِنِّي سَقِيمٌ سورة الصافات آية 89 , وَقَوْلُهُ: بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا سورة الأنبياء آية 63 , وَقَوْلُهُ لِامْرَأَتِهِ: إِنَّهَا أُخْتِي، وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، الَّذِي اصْطَفَاهُ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَكَلَامِهِ , فَيَأْتُونَ مُوسَى , فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى، أَنْتَ الَّذِي اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَكَلَّمَكَ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا , فَيَقُولُ: إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ، إِنِّي قَتَلْتُ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ، وَإِنَّهُ لَا يُهِمُّنِي الْيَوْمَ إِلَّا نَفْسِي، وَلَكِنْ ائْتُوا عِيسَى، رُوحَ اللَّهِ وَكَلِمَتَهُ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى، أَنْتَ رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا , فَيَقُولُ: إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ، إني قَدْ اتُّخِذْتُ إِلَهًا مِنْ دُونِ اللَّهِ، وَإِنَّهُ لَا يُهِمُّنِي الْيَوْمَ إِلَّا نَفْسِي , ثُمَّ قَالَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ كَانَ مَتَاعٌ فِي وِعَاءٍ قَدْ خُتِمَ عَلَيْهِ، أَكَانَ يُقْدَرُ عَلَى مَا فِي الْوِعَاءِ حَتَّى يُفَضَّ الْخَاتَمُ؟ فَيَقُولُونَ: لَا , فَيَقُولُ: إِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خَاتَمَ النَّبِيِّينَ، قَدْ حَضَرَ الْيَوْمَ، وَقَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ" , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَيَأْتُونِي، فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَلْيَقْضِ بَيْنَنَا , فَأَقُولُ: نَعَمْ أَنَا لَهَا، حَتَّى يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى، فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَصْدَعَ بَيْنَ خَلْقِهِ نَادَى مُنَادٍ: أَيْنَ أَحْمَدُ وَأُمَّتُهُ؟ فَنَحْنُ الْآخِرُونَ الْأَوَّلُونَ، فَنَحْنُ آخِرُ الْأُمَمِ، وَأَوَّلُ مَنْ يُحَاسَبُ، فَتُفْرَجُ لَنَا الْأُمَمُ عَنْ طَرِيقِنَا، فَنَمْضِي غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ أَثَرِ الطُّهُورِ، وَتَقُولُ الْأُمَمُ: كَادَتْ هَذِهِ الْأُمَّةُ أَنْ تَكُونَ أَنْبِيَاءَ كُلُّهَا , قَالَ: ثُمَّ آتِي بَابَ الْجَنَّةِ، فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ، فَأَقْرَعُ الْبَابَ، فَيُقَالُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَقُولُ مُحَمَّدٌ، فَيُفْتَحُ لِي، فَأَرَى رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، وَهُوَ عَلَى كُرْسِيِّهِ أَوْ سَرِيرِهِ فَأَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، وَأَحْمَدُهُ بِمَحَامِدَ لَمْ يَحْمَدْهُ بِهَا أَحَدٌ كَانَ قَبْلِي، وَلَا يَحْمَدُهُ بِهَا أَحَدٌ بَعْدِي، فَيُقَالُ لي: ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ تُسْمَعْ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ , قَالَ: فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أُمَّتِي، أُمَّتِي , فَيُقَالُ لِي: أَخْرِجْ مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ كَذَا وَكَذَا , فَأُخْرِجُهُمْ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَخِرُّ سَاجِدًا، وَأَحْمَدُهُ بِمَحَامِدَ لَمْ يَحْمَدْهُ بِهَا أَحَدٌ كَانَ قَبْلِي، وَلَا يَحْمَدُهُ بِهَا أَحَدٌ بَعْدِي، فَيُقَالُ لِي: ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ , فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أُمَّتِي، أُمَّتِي , فَيُقَالُ: أَخْرِجْ مَنْ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ كَذَا وَكَذَا , فَأُخْرِجُهُمْ" , قَالَ: وَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ مِثْلَ هَذَا أَيْضًا.
ابونضرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جامع بصرہ کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کی کم از کم ایک دعا ایسی ضرور تھی جو انہوں نے دنیا میں پوری کروا لی، لیکن میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے ذخیرہ کر لیا ہے، میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور میں اس پر فخر نہیں کرتا، میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جس سے زمین کو ہٹایا جائے گا اور میں اس پر بھی فخر نہیں کرتا، میرے ہی ہاتھ میں لواء الحمد (حمد کا جھنڈا) ہوگا اور میں اس پر بھی فخر نہیں کرتا، حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ سب لوگ میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور میں اس پر بھی فخر نہیں کرتا۔ قیامت کا دن لوگوں کو بہت لمبا محسوس ہوگا، وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ آؤ، حضرت آدم علیہ السلام کے پاس چلتے ہیں، وہ ابوالبشر ہیں کہ وہ ہمارے پروردگار کے سامنے سفارش کر دیں تاکہ وہ ہمارا حساب کتاب شروع کر دے، چنانچہ سب لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ اے آدم! آپ وہی تو ہیں جنہیں اللہ نے اپنے دست مبارک سے پیدا فرمایا، اپنی جنت میں ٹھہرایا، اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا، آپ پروردگار سے سفارش کر دیں کہ وہ ہمارا حساب شروع کر دے، وہ کہیں گے کہ میں اس کام کا اہل نہیں ہوں، مجھے میری ایک خطا کی وجہ سے جنت سے نکال دیا گیا تھا، آج تو مجھے صرف اپنی فکر ہے، البتہ تم حضرت نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ جو تمام انبیاء کی جڑ ہیں۔ چنانچہ ساری مخلوق اور تمام انسان حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ اے نوح! آپ ہمارے پروردگار سے سفارش کر دیں تاکہ وہ ہمارا حساب شروع کر دے، وہ فرمائیں گے کہ میں اس کام کا اہل نہیں ہوں، میں نے ایک دعا مانگی تھی جس کی وجہ سے زمین والوں کو غرق کر دیا گیا تھا، آج تو مجھے صرف اپنی فکر ہے، البتہ تم خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ اے ابراہیم! آپ ہمارے رب سے سفارش کریں تاکہ وہ ہمارا حساب شروع کر دے، وہ فرمائیں گے کہ میں اس کام کا اہل نہیں ہوں، میں نے زمانہ اسلام میں تین مرتبہ ذو معنی لفظ بولے تھے جن سے مراد واللہ! دین ہی تھا (ایک تو اپنے آپ کو بیمار بتایا تھا، دوسرا یہ فرمایا تھا کہ ان بتوں کو ان کے بڑے نے توڑا ہے، اور تیسرا یہ کہ بادشاہ کے پاس پہنچ کر اپنی اہلیہ کو اپنی بہن قرار دیا تھا)، آج تو مجھے صرف اپنی فکر ہے، البتہ تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، جنہیں اللہ نے اپنی پیغامبری اور اپنے کلام کے لئے منتخب فرمایا تھا۔ اب سارے لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچیں گے اور ان سے کہیں گے کہ اے موسیٰ! آپ ہی تو ہیں جنہیں اللہ نے اپنی پیغمبری کے لئے منتخب کیا اور آپ سے بلا واسطہ کلام فرمایا، آپ اپنے پروردگار سے سفارش کر کے ہمارا حساب شروع کروا دیں، وہ فرمائیں گے کہ میں اس کام کا اہل نہیں ہوں، میں نے ایک شخص کو بغیر کسی نفس کے بدلے کے قتل کر دیا تھا، اس لئے آج تو مجھے صرف اپنی فکر ہے، البتہ تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ جو روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں، چنانچہ سب لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور ان سے عرض کریں گے کہ آپ اپنے پروردگار سے سفارش کر دیں تاکہ وہ ہمارا حساب شروع کر دے، وہ فرمائیں گے کہ میں تو اس کام کا اہل نہیں ہوں، لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر مجھے معبود بنا لیا تھا، اس لئے آج تو مجھے صرف اپنی فکر ہے، البتہ یہ بتاؤ کہ اگر کوئی چیز کسی ایسے برتن میں پڑی ہوئی ہو جس پر مہر لگی ہوئی ہو، کیا مہر توڑے بغیر اس برتن میں موجود چیز کو حاصل کیا جا سکتا ہے؟ لوگ کہیں گے: نہیں، اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء (علیہم السلام) کی مہر ہیں، آج وہ یہاں موجود بھی ہیں اور ان کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف بھی ہو چکے ہیں (لہذا تم ان کے پاس جاؤ)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر وہ سب میرے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنے رب سے سفارش کر کے ہمارا حساب شروع کروا دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے: ہاں! میں اس کا اہل ہوں، یہاں تک کہ اللہ ہر اس شخص کو اجازت دے دے جسے چاہے اور جس سے خوش ہو، جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے درمیان فیصلہ کرنے کا ارادہ فرمائیں گے تو ایک منادی اعلان کرے گا کہ احمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی امت کہاں ہے؟ ہم سب سے آخر میں آئے اور سب سے آگے ہوں گے، ہم سب سے آخری امت ہیں لیکن سب سے پہلے ہمارا حساب ہوگا اور ساری امتیں ہمارے لئے راستہ چھوڑ دیں گی اور ہم اپنے وضو کے اثرات سے روشن پیشانیوں کے ساتھ روانہ ہو جائیں گے، دوسری امتیں یہ دیکھ کر کہیں گی کہ اس امت کے تو سارے لوگ ہی نبی محسوس ہوتے ہیں۔ بہرحال! میں جنت کے دروازے پر پہنچ کر دروازے کا حلقہ پکڑ کر اسے کھٹکھٹاؤں گا، اندر سے پوچھا جائے گا کہ آپ کون ہیں؟ میں کہوں گا کہ میں محمد ہوں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چنانچہ دروازہ کھول دیا جائے گا، میں اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوں گا جو اپنے تخت پر رونق افروز ہوگا، میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں گا اور اس کی ایسی تعریف کروں گا کہ مجھ سے پہلے کسی نے ایسی تعریف کی ہوگی اور نہ بعد میں کوئی کر سکے گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اے محمد! سر تو اٹھایئے، آپ جو مانگیں گے آپ کو ملے گا، جو بات کہیں گے اس کی شنوائی ہوگی اور جس کی سفارش کریں گے قبول ہوگی، میں اپنا سر اٹھا کر عرض کروں گا کہ پروردگار! میری امت، میری امت۔ ارشاد ہوگا کہ جس کے دل میں اتنے مثقال (راوی اس کی مقدار یاد نہیں رکھ سکے) کے برابر ایمان ہو، اسے جہنم سے نکال لیجئے، ایسا کر چکنے کے بعد میں دوبارہ واپس آؤں گا اور اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر حسب سابق اس کی تعریف کروں گا اور مذکورہ سوال جواب کے بعد مجھ سے کہا جائے گا کہ جس کے دل میں اتنے مثقال (پہلے سے کم مقدار میں) ایمان موجود ہو، اسے جہنم سے نکال لیجئے، تیسری مرتبہ بھی اسی طرح ہوگا۔