مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم -- 0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 2707
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ ، وَيُونُسُ , قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي عَاصِمٍ الْغَنَوِيِّ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ : يَزْعُمُ قَوْمُكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَلَ بِالْبَيْتِ، وَأَنَّ ذَلِكَ سُنَّةٌ, فَقَالَ: صَدَقُوا وَكَذَبُوا , قُلْتُ: وَمَا صَدَقُوا وَمَا كَذَبُوا؟ قَالَ: صَدَقُوا، رَمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَيْتِ، وَكَذَبُوا، لَيْسَ بِسُنَّةٍ، إِنَّ قُرَيْشًا قَالَتْ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ: دَعُوا مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ حَتَّى يَمُوتُوا مَوْتَ النَّغَفِ، فَلَمَّا صَالَحُوهُ عَلَى أَنْ يَقْدَمُوا مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ، وَيُقِيمُوا بِمَكَّةَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمُشْرِكُونَ مِنْ قِبَلِ قُعَيْقِعَانَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ:" ارْمُلُوا بِالْبَيْتِ ثَلَاثًا"، وَلَيْسَ بِسُنَّةٍ , قُلْتُ: وَيَزْعُمُ قَوْمُكَ أَنَّهُ طَاف بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ عَلَى بَعِيرٍ، وَأَنَّ ذَلِكَ سُنَّةٌ , فَقَالَ: صَدَقُوا وَكَذَبُوا , فَقُلْتُ: وَمَا صَدَقُوا وَكَذَبُوا؟ فَقَالَ: صَدَقُوا، قَدْ طَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ عَلَى بَعِيرٍ، وَكَذَبُوا، لَيْسَت بِسُنَّةٍ، كَانَ النَّاسُ لَا يُدْفَعُونَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يُصْرَفُونَ عَنْهُ، فَطَافَ عَلَى بَعِيرٍ لِيَسْمَعُوا كَلَامَهُ، وَلَا تَنَالُهُ أَيْدِيهِمْ , قُلْتُ: وَيَزْعُمُ قَوْمُكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَأَنَّ ذَلِكَ سُنَّةٌ؟ قَالَ: صَدَقُوا، إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَمَّا أُمِرَ بِالْمَنَاسِكِ، عَرَضَ لَهُ الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَسْعَى فَسَابَقَهُ، فَسَبَقَهُ إِبْرَاهِيمُ، ثُمَّ ذَهَبَ بِهِ جِبْرِيلُ إِلَى جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ، فَعَرَضَ لَهُ شَيْطَانٌ، قَالَ يُونُسُ: الشَّيْطَانُ , فَرَمَاهُ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، حَتَّى ذَهَبَ، ثُمَّ عَرَضَ لَهُ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْوُسْطَى فَرَمَاهُ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، قَالَ: قَدْ تَلَّهُ لِلْجَبِينِ، قَالَ يُونُسُ: وَثَمَّ تَلَّهُ لِلْجَبِينِ، وَعَلَى إِسْمَاعِيلَ قَمِيصٌ أَبْيَضُ، وَقَالَ: يَا أَبَتِ، إِنَّهُ لَيْسَ لِي ثَوْبٌ تُكَفِّنُنِي فِيهِ غَيْرُهُ، فَاخْلَعْهُ حَتَّى تُكَفِّنَنِي فِيهِ، فَعَالَجَهُ لِيَخْلَعَهُ، فَنُودِيَ مِنْ خَلْفِهِ: أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ , قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا سورة الصافات آية 53 - 105 , فَالْتَفَتَ إِبْرَاهِيمُ، فَإِذَا هُوَ بِكَبْشٍ أَبْيَضَ , أَقْرَنَ أَعْيَنَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَقَدْ رَأَيْتُنَا نَبِيعُ هَذَا الضَّرْبَ مِنَ الْكِبَاشِ، قَالَ: ثُمَّ ذَهَبَ بِهِ جِبْرِيلُ إِلَى الْجَمْرَةِ الْقُصْوَى، فَعَرَضَ لَهُ الشَّيْطَانُ، فَرَمَاهُ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ حَتَّى ذَهَبَ، ثُمَّ ذَهَبَ بِهِ جِبْرِيلُ إِلَى مِنًى، قَالَ: هَذَا مِنًى، قَالَ يُونُسُ: هَذَا مُنَاخُ النَّاسِ، ثُمَّ أَتَى بِهِ جَمْعًا، فَقَالَ: هَذَا الْمَشْعَرُ الْحَرَامُ، ثُمَّ ذَهَبَ بِهِ إِلَى عَرَفَةَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَلْ تَدْرِي لِمَ سُمِّيَتْ عَرَفَةَ؟ قُلْتُ: لَا , قَالَ: إِنَّ جِبْرِيلَ قَالَ لِإِبْرَاهِيمَ عَرَفْتَ، قَالَ يُونُسُ: هَلْ عَرَفْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ , قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَمِنْ ثَمَّ سُمِّيَتْ عَرَفَةَ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرِي كَيْفَ كَانَتْ التَّلْبِيَةُ؟ قُلْتُ: وَكَيْفَ كَانَتْ؟ قَالَ: إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَمَّا أُمِرَ أَنْ يُؤَذِّنَ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ، خَفَضَتْ لَهُ الْجِبَالُ رُءُوسَهَا، وَرُفِعَتْ لَهُ الْقُرَى، فَأَذَّنَ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ.
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران طواف رمل کیا ہے اور یہ سنت ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ لوگ کچھ سچ اور کچھ غلط کہتے ہیں، میں نے عرض کیا: سچ کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ فرمایا: سچ تو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے رمل کیا ہے لیکن اسے سنت قرار دینا غلط ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قریش نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو چھوڑ دو، تاآنکہ یہ اسی طرح مر جائیں جیسے اونٹ کی ناک میں کیڑا نکلنے سے وہ مر جاتا ہے، جب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منجملہ دیگر شرائط کے اس شرط پر صلح کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ آئندہ سال مکہ مکرمہ میں آ کر تین دن ٹھہر سکتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال تشریف لائے، مشرکین جبل قعیقعان کی طرف بیٹھے ہوئے تھے، انہیں دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تین چکروں میں رمل کا حکم دیا، یہ سنت نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم کا یہ بھی خیال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا مروہ کے درمیان سعی اونٹ پر بیٹھ کر کی ہے اور یہ سنت ہے؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ لوگ کچھ صحیح اور کچھ غلط کہتے ہیں، میں نے عرض کیا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟ فرمایا: یہ بات تو صحیح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر بیٹھ کر سعی کی ہے، لیکن اسے سنت قرار دینا غلط ہے، اصل میں لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہٹتے نہیں تھے اور نہ ہی انہیں ہٹایا جا سکتا تھا، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر بیٹھ کر سعی کی تاکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام بھی سن لیں اور ان کے ہاتھ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم کا یہ بھی خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا مروہ کے درمیان سعی کی اور یہ سعی کرنا سنت ہے؟ فرمایا: وہ سچ کہتے ہیں، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مناسک حج کی ادائیگی کا حکم ہوا تو شیطان مسعی کے قریب ان کے سامنے آیا اور ان سے مسابقت کی، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام آگے بڑھ گئے، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام انہیں لے کر جمرہ عقبہ کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں پھر شیطان ان کے سامنے آ گیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے سات کنکریاں دے ماریں، اور وہ دور ہوگیا، جمرہ وسطی کے قریب وہ دوبارہ ظاہر ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے پھر سات کنکریاں ماریں، یہی وہ جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس وقت سفید رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی، وہ کہنے لگے: اباجان! اس کے علاوہ تو میرے کوئی کپڑے نہیں ہیں جن میں آپ مجھے کفن دے سکیں، اس لئے آپ ان ہی کپڑوں کو میرے جسم پر سے اتار لیں تاکہ اس میں مجھ کو کفن دے سکیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے کپڑے اتارنے کے لئے آگے بڑھے تو ان کے پیچھے سے کسی نے آواز لگائی: اے ابراہیم! تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں ایک سفید رنگ کا، سینگوں والا اور بڑی بڑی آنکھوں والا دنبہ کھڑا تھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو اس ضرب کے نشانات تلاش کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام انہیں لے کر آخری جمرہ کی طرف چلے، راستے میں پھر شیطان سامنے آیا، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر اسے سات کنکریاں ماریں، یہاں تک کہ وہ دور ہوگیا، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام انہیں لے کر منی کے میدان میں آئے اور فرمایا کہ یہ منی ہے، پھر مزدلفہ لے کر آئے اور بتایا کہ یہ مشعر حرام ہے، پھر انہیں لے کر عرفات پہنچے۔ کیا تم جانتے ہو کہ عرفہ کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں، فرمایا: یہاں پہنچ کر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا کہ کیا آپ پہچان گئے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہیں سے اس جگہ کا نام عرفہ پڑ گیا، پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تلبیہ کا آغاز کیسے ہوا؟ میں نے پوچھا کہ کیسے ہوا؟ فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لوگوں میں حج کی منادی کرنے کا حکم ہوا تو پہاڑوں نے ان کے سامنے اپنے سر جھکا دیئے، اور بستیاں ان کے سامنے اٹھا کر پیش کر دی گئیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں میں حج کا اعلان فرمایا۔