مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم -- 0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 2789
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَرْمَلَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ " أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ، فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتَهَلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْنَا الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ ، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُوهُ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ. فَقَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا، وَصَامَ مُعَاوِيَةُ. فَقَالَ: لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكَمِّلَ ثَلَاثِينَ أَوْ نَرَاهُ. فَقُلْتُ: أَوَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ فَقَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
کریب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے انہیں شام بھیجا، میں نے وہاں پہنچ کر اپنا کام کیا، ابھی میں شام ہی میں تھا کہ ماہ رمضان کا چاند نظر آ گیا، ہم نے شب جمعہ کو چاند دیکھا تھا، مہینہ کے آخر میں جب میں مدینہ منورہ واپس آیا تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے کام کے متعلق پوچھا، پھر چاند کا تذکرہ چھڑ گیا، انہوں نے پوچھا کہ تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیا: شب جمعہ کو، انہوں نے پوچھا: کیا تم نے خود بھی دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جی ہاں! اور دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا تھا، لوگوں نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس کے مطابق روزہ رکھا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات کو چاند دیکھا ہے (اگلے دن ہفتہ تھا) اس لے ہم اس وقت تک مسلسل روزے رکھتے رہیں گے جب تک تیس روزے پورے نہ ہو جائیں یا چاند نظر نہ آ جائے، میں نے عرض کیا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت اور روزے پر آپ اکتفاء نہیں کر سکتے؟ فرمایا: نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا ہے۔ (یہیں سے فقہاء نے اختلاف مطالع کا مسئلہ اخذ کیا ہے)۔