مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم -- 0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 2811
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ الزَّعْفَرَانِيُّ ، قَالَ حَدَّثَنِي جَعْفَرٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ خَمْسِ خِلَالٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : إِنَّ النَّاسَ يَزْعُمُونَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ يُكَاتِبُ الْحَرُورِيَّةَ، وَلَوْلَا أَنِّي أَخَافُ أَنْ أَكْتُمَ عِلْمِي لَمْ أَكْتُبْ إِلَيْهِ. كَتَبَ إِلَيْهِ نَجْدَةُ أَمَّا بَعْدُ، فَأَخْبِرْنِي هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ مَعَهُ؟ وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ؟ وَهَلْ كَانَ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ؟ وَمَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ؟ وَأَخْبِرْنِي عَنِ الْخُمُسِ لِمَنْ هُوَ؟ فَكَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ مَعَهُ، فَيُدَاوِينَ الْمَرْضَى، وَلَمْ يَكُنْ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ، وَلَكِنَّهُ كَانَ يُحْذِيهِنَّ مِنَ الْغَنِيمَةِ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ، وَلَا تَقْتُلْ الصِّبْيَانَ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تَعْلَمُ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الصَّبِيِّ الَّذِي قَتَلَهُ، فَتَقْتُلَ الْكَافِرَ، وَتَدَعَ الْمُؤْمِنَ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ يُتْمِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَضِي؟ وَلَعَمْرِي إِنَّ الرَّجُلَ تَنْبُتُ لِحْيَتُهُ وَهُوَ ضَعِيفُ الْأَخْذِ لِنَفْسِهِ؟ فَإِذَا كَانَ يَأْخُذُ لِنَفْسِهِ مِنْ صَالِحِ مَا يَأْخُذُ النَّاسُ، فَقَدْ ذَهَبَ الْيُتْمُ، وَأَمَّا الْخُمُسُ فَإِنَّا كُنَّا نُرَى أَنَّهُ لَنَا، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا".
یزید بن ہرمز کہتے ہیں ایک مرتبہ نجدہ بن عامر نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے خط لکھ کر پانچ سوالات پوچھے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: لوگ سمجھتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما خوارج سے خط و کتابت کرتا ہے، واللہ اگر مجھے کتمان علم کا خوف نہ ہوتا تو میں کبھی اس کا جواب نہ دیتا۔ نجدہ نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ یہ بتائیے: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ خواتین کو جہاد پر لے جاتے تھے؟ ان کے لئے حصہ مقرر کرتے تھے؟ بچوں کو قتل کرتے تھے؟ یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ اور خمس کس کا حق ہے؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جوابا لکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ خواتین کو جہاد پر لے جاتے تھے اور وہ مریضوں کا علاج کرتی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حصہ مقرر نہیں کیا تھا البتہ انہیں بھی مال غنیمت میں سے کچھ نہ کچھ دے دیتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بچے کو قتل نہیں کیا اور آپ بھی کسی کو قتل نہ کریں، ہاں! اگر آپ کو بھی اسی طرح کسی بچے کے بارے پتہ چل جائے جیسے حضرت خضر علیہ السلام کو اس بچے کے بارے پتہ چل گیا تھا جسے انہوں نے مار دیا تھا تو بات جدا ہے (اور یہ تمہارے لئے ممکن نہیں ہے)، آپ نے یتیم کے متعلق پوچھا ہے کہ اس سے یتیم کا لفظ کب ہٹایا جائے گا؟ یاد رکھئے! جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے اور اس کی سمجھ بوجھ ظاہر ہو جائے تو اسے اس کا مال دے دیا جائے کہ اب اس کی یتیمی ختم ہو گئی، ہماری رائے تو یہی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہی اس کا مصداق ہیں لیکن ہماری قوم نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔