صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس کے بیان میں
68. بَابُ الْجَعْدِ:
باب: گھونگھریالے بالوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 5901
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، سَمِعْتُ الْبَرَاءَ، يَقُولُ:" مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِي: عَنْ مَالِكٍ،" إِنَّ جُمَّتَهُ لَتَضْرِبُ قَرِيبًا مِنْ مَنْكِبَيْهِ"، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ، سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُهُ غَيْرَ مَرَّةٍ، مَا حَدَّثَ بِهِ قَطُّ إِلَّا ضَحِكَ، قَالَ شُعْبَةُ:" شَعَرُهُ يَبْلُغُ شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے، ان سے ابواسحاق نے، کہا میں براء رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کہا کہ میں نے سرخ حلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو خوبصورت نہیں دیکھا (امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ) مجھ سے میرے بعض اصحاب نے امام مالک رحمہ اللہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال شانہ مبارک کے قریب تک تھے۔ ابواسحاق نے بیان کیا کہ میں نے براء رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ سے زیادہ یہ حدیث بیان کرتے سنا جب بھی وہ یہ حدیث بیان کرتے تو مسکراتے۔ اس روایت کی متابعت شعبہ نے کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آپ کے کانوں کی لو تک تھے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3599  
´مردوں کے سرخ لباس پہننے کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت بال جھاڑے اور سنوارے ہوئے سرخ جوڑے میں ملبوس کسی کو نہیں دیکھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3599]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام ابن قیم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
حلھ کا مطلب تہبند اور اوڑھنے والی چادر ہے اور حلھ کا لفظ ان دونوں کے مجموعے پر بولا جاتا ہے۔
یہ سمجھنا غلط فہمی ہے کہ یہ جوڑا خالص سرخ رنگ کا تھا اورا س میں دوسرا رنگ شامل نہیں تھا۔
سرخ حلے سے مراد یمن کی دو چادریں ہوتی ہیں جو سرخ اور سیاہ دھاریوں کی صورت میں بنی ہوتی ہیں جس طرح یمن کی دوسری چادریں (لکیر دار)
ہوتی ہیں۔
یہ لباس اس نام (سرخ حلہ)
سے ان سرخ دھاریوں کی وجہ سے مشہور ہے ورنہ خالص سرخ (لباس)
سے تو سختی سے منع کیا گیا ہے البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب الصلاۃ فی الثوب الأحمر حدیث: 376)
میں ذکر کردہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان کے ذریعے سے (سرخ کپڑا پہننے کے)
جواز کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔
گویا خالص سرخ رنگ کا جوڑا پہننا بھی مردوں کے لئے جائز ہے لیکن اگر کسی علاقے میں یہ رنگ عورتوں کے لئے مخصوص ہو چکا ہو تو پھر اس علاقے میں مردوں کے لئے اس سے اجتناب بہتر ہوگا کیونکہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا بھی ممنوع ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3599   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1724  
´مردوں کے لیے سرخ کپڑا پہننے کے جواز کا بیان۔`
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سرخ جوڑے میں کسی لمبے بال والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال شانوں کو چھوتے تھے، آپ کے شانوں کے درمیان دوری تھی، آپ نہ کوتاہ قد تھے اور نہ لمبے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1724]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سرخ لباس کی بابت حالات و ظروف کی رعایت ضروری ہے،
اگر یہ عورتوں کا مخصوص زیب وزینت والا لباس ہے جیسا کہ آج کے اس دور میں شادی کے موقع پر سرخ جوڑا دلہن کو خاص طور سے دیا جاتا ہے تو مردوں کا اس سے بچنا بہتر ہے،
خود نبی اکرم ﷺ کے اس سرخ جوڑے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کیسا تھا؟ خلاصہ اقوال یہ ہے کہ یہ سرخ جوڑا یا دیگر لال لباس جو آپ ﷺ پہنے تھے،
ان میں تانا اور بانا میں رنگوں کا اختلاف تھا،
بالکل خالص لال رنگ کے وہ جوڑے نہیں تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1724   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4072  
´لال رنگ کا استعمال جائز ہے۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آپ کے دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے، میں نے آپ کو ایک سرخ جوڑے میں دیکھا اس سے زیادہ خوبصورت میں نے کوئی چیز کبھی نہیں دیکھی۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4072]
فوائد ومسائل:
نیچے آنے والی حدیث میں وضاحت ہے کہ آپ کا یہ سرخ جوڑا خالص سرخ رنگ کا تعلق نہیں تھا، بلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں جسے برد کہا جاتا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمتہ نے زادالمعاد میں اس کی یہی توجیہ پیش کی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4072   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5901  
5901. حضرت براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سرخ جوڑے میں ملبوس نبی ﷺ سے زیادہ کسی کو خوبصورت نہیں دیکھا (امام بخاری کہتے ہیں) میرے کچھ ساتھیوں نے مالک بن اسماعیل سے بیان کیا کہ آپ ﷺ کے بال کندھوں کے قریب لہراتے تھےابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے (حضرت براء ؓ کو) ایک سے زیادہ مرتبہ یہ حدیث بیان کرتے سنا وہ جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو مسکراتے اس کی متابعت شعبہ نے کی ہے کہ آپ ﷺ کے بال آپ کے کانوں کی لوتک تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5901]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کا ذکر ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کانوں کی لو سے زیادہ اور کندھوں سے کم تھے، یعنی نہ زیادہ لمبے تھے اور نہ بالکل چھوٹے بلکہ درمیانے درجے کے تھے۔
(مسند أحمد: 108/6)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال ہلکا سا خم لیے ہوتے تھے، نہ بالکل سیدھے تنے ہوئے تھے اور نہ انتہائی پیچ دار۔
(مسند أحمد: 135/3)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کانوں کی لو تک ہوتے، بعض اوقات کندھوں تک پہنچ جاتے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ بال بڑھ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مینڈھیاں بنا لیتے۔
(دلائل النبوة: 298/1) (2)
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک مختلف اوقات میں کم و بیش ہوتے رہتے تھے۔
جب زیادہ ہوتے تو کان کی لو سے بھی کچھ آگے چلے جاتے تھے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5901