مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم -- 0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 3103
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ وَحَسَنُ بْنُ مُوسَى قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ . قَالَ أَبِي: حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَلَيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ قَالَتْ: امْرَأَتُهُ هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ مَظْعُونٍ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظْرَةَ غَضَبٍ، فَقَالَ لَهَا:" مَا يُدْرِيكِ؟! فَوَاللَّهِ إِنِّي لَرَسُولُ اللَّهِ، وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي قَالَ عَفَّانُ: وَلَا بِهِ"، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَارِسُكَ وَصَاحِبُكَ! فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ ذَلِكَ لِعُثْمَانَ، وَكَانَ مِنْ خِيَارِهِمْ، حَتَّى مَاتَتْ رُقَيَّةُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" الْحَقِي بِسَلَفِنَا الْخَيْرِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ" قَالَ: وَبَكَتْ النِّسَاءُ، فَجَعَلَ عُمَرُ يَضْرِبُهُنَّ بِسَوْطِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ:" دَعْهُنَّ يَبْكِينَ، وَإِيَّاكُنَّ وَنَعِيقَ الشَّيْطَانِ" ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَهْمَا يَكُنْ مِنَ الْقَلْبِ وَالْعَيْنِ، فَمِنْ اللَّهِ وَالرَّحْمَةِ، وَمَهْمَا كَانَ مِنَ الْيَدِ وَاللِّسَانِ، فَمِنْ الشَّيْطَانِ". وَقَعَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَفِيرِ الْقَبْرِ، وَفَاطِمَةُ إِلَى جَنْبِهِ تَبْكِي، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَيْنَ فَاطِمَةَ بِثَوْبِهِ، رَحْمَةً لَهَا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ایک خاتون کہنے لگی کہ عثمان! تمہیں جنت مبارک ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کی طرف غصے بھری نگاہوں سے دیکھا اور فرمایا: تمہیں کیسے پتہ چلا؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ آپ کے شہسوار اور ساتھی تھے (اس لئے مرنے کے بعد جنت ہی میں جائیں گے)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واللہ! مجھے اللہ کا پیغمبر ہونے کے باوجود معلوم نہیں ہے کہ میرے ساتھ کیا ہوگا، یہ سن کر لوگ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کے بارے ڈر گئے لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے آگے جانے والے بہترین ساتھی عثمان بن مظعون سے جا ملو (جس سے ان کا جنتی ہونا ثابت ہوگیا)۔ اس پر عورتیں رونے لگیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انہیں کوڑوں سے مارنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: عمر! رک جاؤ، پھر خواتین سے فرمایا کہ تمہیں رونے کی اجازت ہے لیکن شیطان کی چیخ و پکار سے اپنے آپ کو بچاؤ، پھر فرمایا کہ جب تک یہ آنکھ اور دل کا معاملہ رہے تو اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور باعث رحمت ہوتا ہے، اور جب ہاتھ اور زبان تک نوبت پہنچ جائے تو یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے کنارے پر بیٹھ گئے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے پہلو میں روتی رہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم شفقت سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آنکھیں اپنے کپڑے سے پونچھنے لگے۔