مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم -- 0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 3310
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: قَالَ: مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كَانَ الَّذِي أَسَرَ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَبُو الْيَسَرِ بْنُ عَمْرٍو، وَهُوَ كَعْبُ بْنُ عَمْرٍو، أَحَدُ بَنِي سَلِمَةَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَيْفَ أَسَرْتَهُ يَا أَبَا الْيَسَرِ؟" قَالَ: لَقَدْ أَعَانَنِي عَلَيْهِ رَجُلٌ مَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ وَلَا قَبْلُ، هَيْئَتُهُ كَذَا، هَيْئَتُهُ كَذَا. قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ أَعَانَكَ عَلَيْهِ مَلَكٌ كَرِيمٌ"، وَقَالَ لِلْعَبَّاسِ:" يَا عَبَّاسُ، افْدِ نَفْسَكَ وَابْنَ أَخِيكَ عَقِيلَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ، وَحَلِيفَكَ عُتْبَةَ بْنَ جَحْدَمٍ". أَحَدُ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ فِهْرٍ، قَالَ: فَأَبَى، وَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ مُسْلِمًا قَبْلَ ذَلِكَ، وَإِنَّمَا اسْتَكْرَهُونِي. قَالَ:" اللَّهُ أَعْلَمُ بِشَأْنِكَ، إِنْ يَكُ مَا تَدَّعِي حَقًّا، فَاللَّهُ يَجْزِيكَ بِذَلِكَ، وَأَمَّا ظَاهِرُ أَمْرِكَ، فَقَدْ كَانَ عَلَيْنَا، فَافْدِ نَفْسَكَ" وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَخَذَ مِنْهُ عِشْرِينَ أُوقِيَّةَ ذَهَبٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، احْسُبْهَا لِي مِنْ فِدَايَ. قَالَ:" لَا، ذَاكَ شَيْءٌ أَعْطَانَاهُ اللَّهُ مِنْكَ"، قَالَ: فَإِنَّهُ لَيْسَ لِي مَالٌ. قَالَ:" فَأَيْنَ الْمَالُ الَّذِي وَضَعْتَهُ بِمَكَّةَ، حَيْثُ خَرَجْتَ، عِنْدَ أُمِّ الْفَضْلِ، وَلَيْسَ مَعَكُمَا أَحَدٌ غَيْرَكُمَا، فَقُلْتَ: إِنْ أُصِبْتُ فِي سَفَرِي هَذَا، فَلِلْفَضْلِ كَذَا، وَلِقُثَمَ كَذَا، وَلِعَبْدِ اللَّهِ كَذَا؟"، قَالَ: فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا عَلِمَ بِهَذَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ غَيْرِي وَغَيْرُهَا، وَإِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے موقع پر میرے والد عباس کو قیدی بنا کر گرفتار کرنے والے صحابی کا نام سیدنا ابوالیسر کعب بن عمرو رضی اللہ عنہ تھا، جن کا تعلق بنو سلمہ سے تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ابوالیسر! تم نے انہیں کیسے قید کیا؟ انہوں نے کہا کہ اس کام میں میری مدد ایک ایسے آدمی نے کی تھی جسے میں نے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں، اس کی ہیئت ایسی ایسی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کام میں تمہاری مدد ایک فرشتے نے کی تھی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے عباس! اپنا، اپنے بھتیجے عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث اور اپنے حلیف عتبہ بن جحدم - جس کا تعلق بنو فہر سے تھا - کا فدیہ ادا کرو، انہوں نے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ میں تو بہت پہلے کا مسلمان ہو چکا ہوں، مجھے تو قریش نے زبردستی روک رکھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کا اصل معاملہ اللہ جانتا ہے، اگر آپ کا دعوی برحق ہے تو اللہ آپ کو اس کا بدلہ دے گا، لیکن ہم تو ظاہر کے ذمہ دار ہیں اس لئے کم از کم اپنی جان کا فدیہ ادا کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جو فدیہ لیا تھا، وہ بیس اوقیہ سونا تھا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرا فدیہ آپ الگ کر کے میرے لئے رکھ لیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا اور فرمایا: یہ تو اللہ نے ہمیں آپ سے دلوایا ہے، وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس کچھ بھی مال و دولت نہیں رہا، فرمایا: وہ مال - جو تم نے مکہ مکرمہ سے نکلتے وقت ام الفضل کے پاس رکھوایا تھا، اور اس وقت تم دونوں کے ساتھ کوئی تیسرا نہ تھا - کہاں جائے گا؟ اور تم نے کہا تھا کہ اگر میں اس سفر میں کام آ گیا تو اتنا فضل کا ہے، اتنا قثم کا اور اتنا عبداللہ کا، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ یہ سن کر کہنے لگے کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میرے اور میری بیوی کے علاوہ کسی شخص کو بھی اس کا کچھ پتہ نہ تھا، اور میں جانتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔