مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم -- 0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 3490
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ الْمَخْزُومِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ، فَبِتُّ عِنْدَهَا، فَوَجَدْتُ لَيْلَتَهَا تِلْكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ دَخَلَ بَيْتَهُ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، فَجِئْتُ فَوَضَعْتُ رَأْسِي عَلَى نَاحِيَةٍ مِنْهَا، فَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ فَإِذَا عَلَيْهِ لَيْلٌ، فعاد فَسَبَّحَ وَكَبَّرَ حَتَّى نَامَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَقَدْ ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، أَوْ قَالَ: ثُلُثَاهُ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى قِرْبَةٍ عَلَى شَجْبٍ فِيهَا مَاءٌ، فَمَضْمَضَ ثَلَاثًا، وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ مّرةً، ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَيْهِ، قَالَ يَزِيدُ: حَسِبْتُهُ قَالَ: ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ أَتَى مُصَلَّاهُ، فَقُمْتُ وَصَنَعْتُ كَمَا صَنَعَ، ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُصَلِّيَ بِصَلَاتِهِ، فَأَمْهَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا عَرَفَ أَنِّي أُرِيدُ أَنْ أُصَلِّيَ بِصَلَاتِهِ، لَفَتَ يَمِينَهُ فَأَخَذَ بِأُذُنِي، فَأَدَارَنِي حَتَّى أَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَى أَنَّ عَلَيْهِ لَيْلًا رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّ الْفَجْرَ قَدْ دَنَا، قَامَ فَصَلَّى سِتَّ رَكَعَاتٍ، أَوْتَرَ بِالسَّابِعَةِ، حَتَّى إِذَا أَضَاءَ الْفَجْرُ، قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ وَضَعَ جَنْبَهُ فَنَامَ، حَتَّى سَمِعْتُ فَخِيخَهُ، ثُمَّ جَاءَهُ بِلَالٌ، فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ، فَخَرَجَ فَصَلَّى وَمَا مَسَّ مَاءً". فَقُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ: مَا أَحْسَنَ هَذَا! فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: أَمَا وَاللَّهِ، لَقَدْ قُلْتُ ذَاكَ لِابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: مَهْ، إِنَّهَا لَيْسَتْ لَكَ وَلَا لِأَصْحَابِكَ، إِنَّهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّهُ كَانَ يَحْفَظُ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اپنی خالہ ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آیا، رات ان ہی کے یہاں گزاری، مجھے پتہ چلا کہ آج رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم کے مطابق شب باشی کی باری ان کی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشا کی نماز پڑھ کر گھر میں داخل ہوئے اور چمڑے کے بنے ہوئے اس تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گئے جس میں کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی، میں نے بھی آ کر اس تکیے کے ایک کونے پر سر رکھ دیا، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، دیکھا تو ابھی رات کافی باقی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ بستر پر واپس آ کر تسبیح و تکبیر کہی اور سو گئے۔ دوبارہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو رات کا ایک یا دو تہائی حصہ بیت چکا تھا، لہذا اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، قضاء حاجت کی اور ستون خانے میں لٹکی ہوئی مشک کے پاس آئے جس میں پانی تھا، اس سے تین مرتبہ کلی کی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا اور تین تین مرتبہ دونوں بازو دھوئے، پھر سر اور کانوں کا ایک مرتبہ مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں تین تین مرتبہ دھوئے، اور اپنی جائے نماز پر جا کر کھڑے ہو گئے، میں نے بھی کھڑے ہو کر وہی کچھ کیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، اور آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، ارادہ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں شریک ہو جاؤں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر تو کچھ نہیں کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ میں ان ہی کی نماز میں شرکت کا ارادہ رکھتا ہوں تو اپنا داہنا ہاتھ بڑھا کر میرا کان پکڑا اور مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک دو دو رکعتیں پڑھتے رہے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کا احساس باقی رہا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ فجر کا وقت قریب آ گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ رکعتیں پڑھیں اور ساتویں میں وتر کی نیت کر لی، جب روشنی ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ رہے اور سو گئے یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹوں کی آواز سنی، تھوڑی دیر بعد سیدنا بلال رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور نماز کی اطلاع دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر تشریف لا کر اسی طرح نماز پڑھا دی اور پانی کو چھوا تک نہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے پوچھا کہ یہ کوئی اچھا کام ہے؟ حضرت سعید رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ واللہ! میں نے بھی یہی بات سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھی تھی تو انہوں نے فرمایا تھا: خبردار! یہ حکم تمہارا اور تمہارے ساتھیوں کا نہیں ہے، یہ حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے کیونکہ سوتے میں بھی ان کی حفاظت کی جاتی تھی۔