صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
5. بَابُ إِجَابَةِ دُعَاءِ مَنْ بَرَّ وَالِدَيْهِ:
باب: جس شخص نے اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کیا اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔
حدیث نمبر: 5974
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" بَيْنَمَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ يَتَمَاشَوْنَ أَخَذَهُمُ الْمَطَرُ فَمَالُوا إِلَى غَارٍ فِي الْجَبَلِ فَانْحَطَّتْ عَلَى فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَةٌ مِنَ الْجَبَلِ فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا لِلَّهِ صَالِحَةً، فَادْعُوا اللَّهَ بِهَا لَعَلَّهُ يَفْرُجُهَا، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَ لِي وَالِدَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ وَلِي صِبْيَةٌ صِغَارٌ كُنْتُ أَرْعَى عَلَيْهِمْ، فَإِذَا رُحْتُ عَلَيْهِمْ فَحَلَبْتُ بَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ أَسْقِهِمَا قَبْلَ وَلَدِي، وَإِنَّهُ نَاءَ بِيَ الشَّجَرُ فَمَا أَتَيْتُ حَتَّى أَمْسَيْتُ فَوَجَدْتُهُمَا قَدْ نَامَا، فَحَلَبْتُ كَمَا كُنْتُ أَحْلُبُ فَجِئْتُ بِالْحِلَابِ فَقُمْتُ عِنْدَ رُءُوسِهِمَا، أَكْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا مِنْ نَوْمِهِمَا، وَأَكْرَهُ أَنْ أَبْدَأَ بِالصِّبْيَةِ قَبْلَهُمَا وَالصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمْ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا فُرْجَةً نَرَى مِنْهَا السَّمَاءَ، فَفَرَجَ اللَّهُ لَهُمْ فُرْجَةً حَتَّى يَرَوْنَ مِنْهَا السَّمَاءَ، وَقَالَ الثَّانِي: اللَّهُمَّ إِنَّهُ كَانَتْ لِي ابْنَةُ عَمٍّ أُحِبُّهَا كَأَشَدِّ مَا يُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَاءَ فَطَلَبْتُ إِلَيْهَا نَفْسَهَا فَأَبَتْ حَتَّى آتِيَهَا بِمِائَةِ دِينَارٍ فَسَعَيْتُ حَتَّى جَمَعْتُ مِائَةَ دِينَارٍ فَلَقِيتُهَا بِهَا، فَلَمَّا قَعَدْتُ بَيْنَ رِجْلَيْهَا قَالَتْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ، وَلَا تَفْتَحِ الْخَاتَمَ إلا بحقه فَقُمْتُ عَنْهَا، اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي قَدْ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا فَفَرَجَ لَهُمْ فُرْجَةً، وَقَالَ الْآخَرُ: اللَّهُمَّ إِنِّي كُنْتُ اسْتَأْجَرْتُ أَجِيرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ فَلَمَّا قَضَى عَمَلَهُ قَالَ أَعْطِنِي حَقِّي فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَقَّهُ فَتَرَكَهُ وَرَغِبَ عَنْهُ، فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّى جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا وَرَاعِيَهَا، فَجَاءَنِي فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَظْلِمْنِي وَأَعْطِنِي حَقِّي، فَقُلْتُ: اذْهَبْ إِلَى ذَلِكَ الْبَقَرِ وَرَاعِيهَا، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ وَلَا تَهْزَأْ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي لَا أَهْزَأُ بِكَ فَخُذْ ذَلِكَ الْبَقَرَ وَرَاعِيَهَا فَأَخَذَهُ فَانْطَلَقَ بِهَا، فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ مَا بَقِيَ فَفَرَجَ اللَّهُ عَنْهُمْ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی، انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی چل رہے تھے کہ بارش نے انہیں آ لیا اور انہوں نے مڑ کر پہاڑی کی غار میں پناہ لی۔ اس کے بعد ان کے غار کے منہ پر پہاڑ کی ایک چٹان گری اور اس کا منہ بند ہو گیا۔ اب بعض نے بعض سے کہا کہ تم نے جو نیک کام کئے ہیں ان میں سے ایسے کام کو دھیان میں لاؤ جو تم نے خالص اللہ کے لیے کیا ہو تاکہ اللہ سے اس کے ذریعہ دعا کرو ممکن ہے وہ غار کو کھول دے۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے والدین تھے اور بہت بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ میں ان کے لیے بکریاں چراتا تھا اور واپس آ کر دودھ نکالتا تو سب سے پہلے اپنے والدین کو پلاتا تھا اپنے بچوں سے بھی پہلے۔ ایک دن چارے کی تلاش نے مجھے بہت دور لے جا ڈالا چنانچہ میں رات گئے واپس آیا۔ میں نے دیکھا کہ میرے والدین سو چکے ہیں۔ میں نے معمول کے مطابق دودھ نکالا پھر میں دوھا ہوا دودھ لے کر آیا اور ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا میں گوارا نہیں کر سکتا تھا کہ انہیں سونے میں جگاؤں اور یہ بھی مجھ سے نہیں ہو سکتا تھا کہ والدین سے پہلے بچوں کو پلاؤں۔ بچے بھوک سے میرے قدموں پر لوٹ رہے تھے اور اسی کشمکش میں صبح ہو گئی۔ پس اے اللہ! اگر تیرے علم میں بھی یہ کام میں نے صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے کشادگی پیدا کر دے کہ ہم آسمان دیکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے (دعا قبول کی اور) ان کے لیے اتنی کشادگی پیدا کر دی کہ وہ آسمان دیکھ سکتے تھے۔ دوسرے شخص نے کہا: اے اللہ! میری ایک چچا زاد بہن تھی اور میں اس سے محبت کرتا تھا، وہ انتہائی محبت جو ایک مرد ایک عورت سے کر سکتا ہے۔ میں نے اس سے اسے مانگا تو اس نے انکار کیا اور صرف اس شرط پر راضی ہوئی کہ میں اسے سو دینار دوں۔ میں نے دوڑ دھوپ کی اور سو دینار جمع کر لایا پھر اس کے پاس انہیں لے کر گیا پھر جب میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان میں بیٹھ گیا تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور مہر کو مت توڑ۔ میں یہ سن کر کھڑا ہو گیا (اور زنا سے باز رہا) پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے کچھ اور کشادگی (چٹان کو ہٹا کر) پیدا کر دے۔ چنانچہ ان کے لیے تھوڑی سی اور کشادگی ہو گئی۔ تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ! میں نے ایک مزدور ایک فرق چاول کی مزدوری پر رکھا تھا اس نے اپنا کام پورا کر کے کہا کہ میری مزدوری دو۔ میں نے اس کی مزدوری دے دی لیکن وہ چھوڑ کر چلا گیا اور اس کے ساتھ بےتوجہی کی۔ میں اس کے اس بچے ہوئے دھان کو بوتا رہا اور اس طرح میں نے اس سے ایک گائے اور اس کا چرواہا کر لیا (پھر جب وہ آیا تو) میں نے اس سے کہا کہ یہ گائے اور چرواہا لے جاؤ۔ اس نے کہا اللہ سے ڈرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو۔ میں نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ اس گائے اور چرواہے کو لے جاؤ۔ چنانچہ وہ انہیں لے کر چلا گیا۔ پس اگر تیرے علم میں بھی میں نے یہ کام تیری رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو (چٹان کی وجہ سے غار سے نکلنے میں جو رکاوٹ باقی رہ گئی ہے اسے بھی کھول دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پوری طرح کشادگی کر دی جس سے وہ باہر آ گئے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5974  
5974. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ایک دفعہ تین آدمی کہیں جا رہے تھے کہا انہیں بارش نے آ لیا۔ وہ پہاڑ کے غار میں گھس گئے، پھر غار کے منہ پر پہاڑ کی بہت بڑی چٹان گری جس سے اس کا منہ بند ہو گیا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم نے جو نیک کام کیے ہیں ان میں سے جو خالص اللہ کے لیے کیا ہے اس کے ذریعے سے اللہ کے حضور دعا کرو، ممکن ہے کہ وہ غار کو کھول دے چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے میں ان کے لیے بکریوں کا دودھ نکال کر اپنے والدین سے اس کی ابتدا کرتا، ان کے بعد اپنے بچوں کو پلاتا تھا۔ ایک دن درختوں کی تلاش میں بہت دور چلا گیا اور شام کو بہت دیر سے گھر آیا۔ میں نے والدین کو دیکھا کہ وہ سو گئے ہیں تاہم میں نے حسب معمول دودھ نکالا پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5974]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے نیک کاموں کو بوقت دعا بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ثابت ہوا۔
آیت وابتغوآ الیہ الوسیلۃ (المائدۃ: 35)
کا یہی مطلب ہے۔
نیک لوگوں کا وسیلہ یہ ہے کہ وہ زندہ ہوں تو ان سے دعا کرائی جائے، مردوں کا وسیلہ بالکل بے ثبوت چیز ہے جس سے پرہیز کرنا فرض ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5974   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5974  
5974. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ایک دفعہ تین آدمی کہیں جا رہے تھے کہا انہیں بارش نے آ لیا۔ وہ پہاڑ کے غار میں گھس گئے، پھر غار کے منہ پر پہاڑ کی بہت بڑی چٹان گری جس سے اس کا منہ بند ہو گیا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم نے جو نیک کام کیے ہیں ان میں سے جو خالص اللہ کے لیے کیا ہے اس کے ذریعے سے اللہ کے حضور دعا کرو، ممکن ہے کہ وہ غار کو کھول دے چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے میں ان کے لیے بکریوں کا دودھ نکال کر اپنے والدین سے اس کی ابتدا کرتا، ان کے بعد اپنے بچوں کو پلاتا تھا۔ ایک دن درختوں کی تلاش میں بہت دور چلا گیا اور شام کو بہت دیر سے گھر آیا۔ میں نے والدین کو دیکھا کہ وہ سو گئے ہیں تاہم میں نے حسب معمول دودھ نکالا پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5974]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حديث سے معلوم ہوا کہ مصیبت کے وقت دعا کرنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، ان کی خدمت کرنا اور انھیں بیوی بچوں پر ترجیح دینا افضل عمل ہے۔
اس عمل کی بدولت اللہ تعالیٰ دعائیں سنتا اور انھیں شرف قبولیت سے نوازتا ہے، اس کے برعکس جو انسان والدین کا نافرمان ہے اور ان کی خدمت گزاری سے پہلو تہی کرتا ہے وہ دنیا و آخرت میں ذلیل وخوار ہوگا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ اس انسان کی ناک خاک آلود کرے اور اسے تباہ وبرباد کرے جس نے اپنے والدین میں سے دونوں یا ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر ان کی خدمت کرکےجنت نہ لےسکا۔
(صحیح مسلم، البروالصلة،حدیث: 6510(2551) (2)
اس حدیث سے نیک کاموں کو بوقت دعا بطور وسیلہ پیش کرنا بھی جائز ثابت ہوا، لیکن مردوں کا وسیلہ بالکل بے ثبوت ہے، اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5974