مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
28. مسنَد عبد الله بن مسعود رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
0
حدیث نمبر: 3632
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا تَقُولُونَ فِي هَؤُلَاءِ الْأَسْرَى؟" قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَوْمُكَ وَأَهْلُكَ، اسْتَبْقِهِمْ، وَاسْتَأْنِ بِهِمْ، لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ، قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْرَجُوكَ وَكَذَّبُوكَ، قَرِّبْهُمْ فَاضْرِبْ أَعْنَاقَهُمْ، قَالَ: وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، انْظُرْ وَادِيًا كَثِيرَ الْحَطَبِ، فَأَدْخِلْهُمْ فِيهِ، ثُمَّ أَضْرِمْ عَلَيْهِمْ نَارًا، قَالَ: فَقَالَ الْعَبَّاسُ: قَطَعْتَ رَحِمَكَ، قَالَ: فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ شَيْئًا، قَالَ: فَقَالَ نَاسٌ: يَأْخُذُ بِقَوْلِ أَبِي بَكْرٍ، وَقَالَ نَاسٌ: يَأْخُذُ بِقَوْلِ عُمَرَ، وَقَالَ نَاسٌ: يَأْخُذُ بِقَوْلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ، قَالَ: فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ لَيُلِينُ قُلُوبَ رِجَالٍ فِيهِ، حَتَّى تَكُونَ أَلْيَنَ مِنَ اللَّبَنِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَيَشُدُّ قُلُوبَ رِجَالٍ فِيهِ، حَتَّى تَكُونَ أَشَدَّ مِنَ الْحِجَارَةِ، وَإِنَّ مَثَلَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ كَمَثَلِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ: فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي، وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة إبراهيم آية 36، وَمَثَلَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ كَمَثَلِ عِيسَى، قَالَ: إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 118، وَإِنَّ مَثَلَكَ يَا عُمَرُ كَمَثَلِ نُوحٍ، قَالَ: رَبِّ لا تَذَرْ عَلَى الأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا سورة نوح آية 26، وَإِنَّ مِثْلَكَ يَا عُمَرُ كَمَثَلِ مُوسَى، قَالَ: رَبِّ اشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوْا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ، أَنْتُمْ عَالَةٌ، فَلَا يَنْفَلِتَنَّ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا بِفِدَاءٍ، أَوْ ضَرْبَةِ عُنُقٍ"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا سُهَيْلُ ابْنُ بَيْضَاءَ، فَإِنِّي قَدْ سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ الْإِسْلَامَ، قَالَ: فَسَكَتَ، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُنِي فِي يَوْمٍ، أَخْوَفَ أَنْ تَقَعَ عَلَيَّ حِجَارَةٌ مِنَ السَّمَاءِ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ حَتَّى قَالَ:" إِلَّا سُهَيْلُ ابْنُ بَيْضَاءَ"، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الآخِرَةَ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ إِلَى قَوْلِهِ لَوْلا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ سورة الأنفال آية 67 - 68.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب غزوہ بدر ہو چکا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ ان قیدیوں کے بارے تمہاری کیا رائے ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ آپ ہی کی قوم اور گھرانے کے لوگ ہیں، انہیں زندہ رہنے دیجئے اور ان سے مانوس ہونے کی کوشش کیجئے، شاید اللہ تعالیٰ ان کی طرف متوجہ ہو جائے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان لوگوں نے آپ کو نکالا اور آپ کی تکذیب کی، انہیں قریب بلا کر ان کی گردنیں اتار دیجئے، سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! کوئی ایسی وادی تلاش کیجئے جہاں لکڑیاں زیادہ ہوں، انہیں اس وادی میں داخل کر کے ان لکڑیوں کو آگ لگا دیں، اس پر عباس کہنے لگے کہ تم نے رشتہ داری کو ختم کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی جواب دیئے بغیر اندر چلے گئے۔ کچھ لوگ کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے پر عمل کریں گے، کچھ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور کچھ نے سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دیئے جانے کی رائے ظاہر کی، تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے معاملے میں بعض لوگوں کے دلوں کو نرم کر دیتا ہے حتی کہ وہ دودھ سے بھی زیادہ نرم ہو جاتے ہیں، اور بعض لوگوں کے دلوں کو اتنا سخت کر دیتے ہیں کہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں، اور ابوبکر! آپ کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سی ہے جنہوں نے فرمایا تھا: جو میری پیروی کرے گا وہ مجھ سے ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا تو آپ بڑے بخشنے والے مہربان ہیں، اور ابوبکر! آپ کی مثال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سی ہے جنہوں نے فرمایا تھا: اگر آپ انہیں سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ انہیں معاف کر دیں تو آپ بڑے غالب، حکمت والے ہیں، اور عمر! تمہاری مثال حضرت نوح علیہ السلام کی سی ہے جنہوں نے فرمایا تھا: پروردگار! زمین پر کافروں کا کوئی گھر بھی باقی نہ چھوڑ، اور عمر! تمہاری مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سی ہے جنہوں نے دعا کی تھی: پروردگار! ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ یہ ایمان ہی نہ لا سکیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب کو دیکھ لیں۔ تم لوگ ضرورت مند ہو اور ان میں سے کوئی شخص فدیہ یا قتل کے بغیر واپس نہیں جائے گا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے منہ سے نکل گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سوائے سہیل بن بیضاء کے، کیونکہ میں نے انہیں اسلام کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا ہے؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، مجھے اس دن سے زیادہ کبھی اس بات کا خوف محسوس نہیں ہوا کہ کہیں آسمان سے مجھ پر کوئی پتھر نہ گر پڑے، یہاں تک کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرما دیا: سوائے سہیل بن بیضاء کے، اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللّٰهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ o لَوْلَا كِتَابٌ مِنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ [الأنفال: 67-68] » نبی کے لئے یہ بات مناسب نہ تھی کہ اپنے پاس قیدی رکھیں، یہاں تک کہ زمین میں خون ریزی نہ کر لیں، تم دنیا کا ساز و سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے اور اللہ بڑا غالب، حکمت والا ہے، اگر اللہ کے یہاں پہلے سے فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا تو تمہارے فدیہ لینے کے معاملے میں تم پر بڑا سخت عذاب آ جاتا۔