مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
28. مسنَد عبد الله بن مسعود رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
0
حدیث نمبر: 3787
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ عُثْمَانَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالْأَسْوَدِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: جَاءَ ابْنَا مُلَيْكَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَا: إِنَّ أُمَّنَا كَانَتْ تُكْرِمُ الزَّوْجَ، وَتَعْطِفُ عَلَى الْوَلَدِ، قَالَ: وَذَكَرَ الضَّيْفَ غَيْرَ أَنَّهَا كَانَتْ وَأَدَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَ:" أُمُّكُمَا فِي النَّارِ"، فَأَدْبَرَا، وَالشَّرُّ يُرَى فِي وُجُوهِهِمَا، فَأَمَرَ بِهِمَا، فَرُدَّا، فَرَجَعَا وَالسُّرُورُ يُرَى فِي وُجُوهِهِمَا، رَجِيَا أَنْ يَكُونَ قَدْ حَدَثَ شَيْءٌ، فَقَالَ:" أُمِّي مَعَ أُمِّكُمَا"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُنَافِقِينَ: وَمَا يُغْنِي هَذَا عَنْ أُمِّهِ شَيْئًا، وَنَحْنُ نَطَأُ عَقِبَيْهِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: وَلَمْ أَرَ رَجُلًا قَطُّ أَكْثَرَ سُؤَالًا مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ وَعَدَكَ رَبُّكَ فِيهَا أَوْ فِيهِمَا؟ قَالَ: فَظَنَّ أَنَّهُ مِنْ شَيْءٍ قَدْ سَمِعَهُ، فَقَالَ:" مَا سَأَلْتُهُ رَبِّي، وَمَا أَطْمَعَنِي فِيهِ، وَإِنِّي لَأَقُومُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: وَمَا ذَاكَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ؟ قَالَ:" ذَاكَ إِذَا جِيءَ بِكُمْ عُرَاةً حُفَاةً غُرْلًا، فَيَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُكْسَى إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام، يَقُولُ: اكْسُوا خَلِيلِي، فَيُؤْتَى بِرَيْطَتَيْنِ بَيْضَاوَيْنِ، فَلَيَلْبِسْهُمَا، ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَسْتَقْبِلُ الْعَرْشَ، ثُمَّ أُوتَى بِكِسْوَتِي، فَأَلْبَسُهَا، فَأَقُومُ عَنْ يَمِينِهِ مَقَامًا لَا يَقُومُهُ أَحَدٌ غَيْرِي، يَغْبِطُنِي بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ"، قَالَ:" وَيُفْتَحُ نَهَرٌ مِنَ الْكَوْثَرِ إِلَى الْحَوْضِ"، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ: فَإِنَّهُ مَا جَرَى مَاءٌ قَطُّ إِلَّا عَلَى حَالٍ، أَوْ رَضْرَاضٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلَى حَالٍ أَوْ رَضْرَاضٍ؟ قَالَ:" حَالُهُ الْمِسْكُ، وَرَضْرَاضُهُ التُّومُ". قَالَ الْمُنَافِقُ: لَمْ أَسْمَعْ كَالْيَوْمِ، قَلَّمَا جَرَى مَاءٌ قَطُّ عَلَى حَالٍ أَوْ رَضْرَاضٍ إِلَّا كَانَ لَهُ نَبْتَةٌ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَهُ نَبْتٌ؟ قَالَ:" نَعَمْ، قُضْبَانُ الذَّهَبِ"، قَالَ الْمُنَافِقُ: لَمْ أَسْمَعْ كَالْيَوْمِ، فَإِنَّهُ قَلَّمَا نَبَتَ قَضِيبٌ إِلَّا أَوْرَقَ، وَإِلَّا كَانَ لَهُ ثَمَرٌ، قَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ مِنْ ثَمَرٍ؟ قَالَ:" نَعَمْ، أَلْوَانُ الْجَوْهَرِ، وَمَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، إِنَّ مَنْ شَرِبَ مِنْهُ مَشْرَبًا لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهُ، وَإِنْ حُرِمَهُ لَمْ يُرْوَ بَعْدَهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ملیکہ کے دونوں بیٹے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہماری والدہ اپنے شوہر کی بڑی عزت کرتی تھیں، بچوں پر بڑی مہربان تھیں، ان کی مہمان نوازی کا بھی انہوں نے تذکرہ کیا، البتہ زمانہ جاہلیت میں انہوں نے ایک بچی کو زندہ درگور کر دیا تھا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں جہنم میں ہے، یہ سن کر وہ دونوں واپس جانے لگے اور ان دونوں کے چہروں سے ناگواری کے آثار واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان دونوں کو واپس بلایا گیا، چنانچہ جب وہ واپس آئے تو ان کے چہرے پر خوشی کے اثرات دیکھے جا سکتے تھے، کیونکہ انہیں یہ امید ہو چلی تھی کہ شاید ان کی والدہ کے متعلق کوئی نیا حکم نازل ہو گیا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ میری ماں بھی تمہاری ماں کے ساتھ ہو گی۔ ایک منافق یہ سن کر چپکے سے کہنے لگا کہ ہم ان کی پیروی یوں ہی کر رہے ہیں، یہ تو اپنی ماں کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے؟ ایک انصاری - جس سے زیادہ سوال کرنے والا میں نے نہیں دیکھا - کہنے لگا: یا رسول اللہ! کیا آپ کے رب نے اس عورت یا ان دنوں کے بارے کوئی وعدہ فرمایا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے پروردگار سے اس کا سوال کیا ہے اور نہ ہی اس نے مجھے کوئی امید دلائی ہے، البتہ میں قیامت کے دن مقام محمود پر فائز کیا جاؤں گا، اس انصاری نے پوچھا: مقام محمود کیا چیز ہے؟ فرمایا: جس وقت قیامت کے دن تم سب کو برہنہ جسم، برہنہ پا اور غیر مختون حالت میں لایا جائے گا، اور سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے خلیل کو لباس پہناؤ، چنانچہ دو سفید چادریں لائی جائیں گی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام انہیں زیب تن فرما لیں گے، پھر وہ بیٹھ جائیں گے اور عرش الٰہی کی طرف رخ کر لیں گے۔ اس کے بعد میرے لئے لباس لایا جائے گا اور میں بھی اسے پہن لوں گا، پھر میں اپنی دائیں جانب ایک ایسے مقام پر کھڑا ہو جاؤں گا جہاں میرے علاوہ کوئی اور کھڑا نہ ہو سکے گا اور اولین و آخرین اس کی وجہ سے مجھ پر رشک کریں گے، پھر جنت کی نہر کوثر میں سے حوض کوثر تک ایک نہر نکالی جائے گی۔ یہ سن کر منافقین کہنے لگے کہ پانی تو ہمیشہ مٹی پر یا چھوٹی اور باریک کنکریوں پر بہتا ہے، اس انصاری نے پوچھا: یا رسول اللہ! وہ پانی کسی مٹی پر بہتا ہو گا یا کنکریوں پر؟ فرمایا: اس کی مٹی مشک ہو گی اور اس کی کنکریاں موتی جیسے چاندی کے دانے ہوں گے، ایک منافق آہستہ سے کہنے لگا کہ یہ بات تو میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنی، جب بھی کسی مٹی یا کنکریوں پر پانی بہتا ہے تو وہاں کچھ چیزیں یقینا اگتی ہیں، اس منافق کی بات سن کر اس انصاری نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا وہاں کچھ چیزیں بھی اگتی ہوں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! سونے کی شاخیں، وہ منافق پھر کہنے لگا کہ یہ بات تو میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں سنی، جہاں شاخیں اگتی ہیں وہاں پتے اور پھل بھی ہوتے ہیں، اس انصاری نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا وہاں پھل بھی ہوں گے؟ فرمایا: ہاں! جواہرات کے رنگ جیسے، اور حوض کوثر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا، جو شخص اس کا ایک گھونٹ پی لے گا، اسے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی اور جو شخص اس سے محروم رہ جائے گا وہ کبھی سیراب نہ ہوگا۔