مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
28. مسنَد عبد الله بن مسعود رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
0
حدیث نمبر: 3876
(حديث قدسي) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ ، عَنْ الْعَيْزَارِ بْنِ جَرْوَلٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُكْنَى أَبَا عُمَيْرٍ ، أَنَّهُ كَانَ صَدِيقًا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ زَارَهُ فِي أَهْلِهِ، فَلَمْ يَجِدْهُ، قَالَ: فَاسْتَأْذَنَ عَلَى أَهْلِهِ، وَسَلَّمَ، فَاسْتَسْقَى، قَالَ: فَبَعَثَتْ الْجَارِيَةَ تَجِيئُهُ بِشَرَابٍ مِنَ الْجِيرَانِ، فَأَبْطَأَتْ، فَلَعَنَتْهَا، فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ ، فَجَاءَ أَبُو عُمَيْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، لَيْسَ مِثْلُكَ يُغَارُ عَلَيْهِ، هَلَّا سَلَّمْتَ عَلَى أَهْلِ أَخِيكَ، وَجَلَسْتَ وَأَصَبْتَ مِنَ الشَّرَابِ؟ قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ، فَأَرْسَلَتْ الْخَادِمَ، فَأَبْطَأَتْ، إِمَّا لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُمْ، وَإِمَّا رَغِبُوا فِيمَا عِنْدَهُمْ، فَأَبْطَأَتْ الْخَادِمُ، فَلَعَنَتْهَا، وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّعْنَةَ إِلَى مَنْ وُجِّهَتْ إِلَيْهِ، فَإِنْ أَصَابَتْ عَلَيْهِ سَبِيلًا، أَوْ وَجَدَتْ فِيهِ مَسْلَكًا، وَإِلَّا قَالَتْ: يَا رَبِّ، وُجِّهْتُ إِلَى فُلَانٍ، فَلَمْ أَجِدْ عَلَيْهِ سَبِيلًا، وَلَمْ أَجِدْ فِيهِ مَسْلَكًا، فَيُقَالُ لَهَا: ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ"، فَخَشِيتُ أَنْ تَكُونَ الْخَادِمُ مَعْذُورَةً، فَتَرْجِعَ اللَّعْنَةُ، فَأَكُونَ سَبَبَهَا.
ابوعمیر کہتے ہیں کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک دوست تھا، ایک مرتبہ وہ اس سے ملنے کے لئے اس کے گھر گئے، لیکن وہاں اس سے ملاقات نہ ہو سکی، انہوں نے اس کے اہل خانہ سے اجازت لی اور سلام کیا اور ان سے پینے کے لئے پانی منگوایا، گھر والوں نے ہمسایوں سے پانی لینے کے لئے باندی کو بھیجا، اس نے آنے میں تاخیر کر دی تو اس عورت نے اس پر لعنت بھیجی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اسی وقت اس گھر سے نکل آئے، اتنی دیر میں ابوعمیر آ گئے اور کہنے لگے: اے ابوعبدالرحمن! آپ جیسے شخص کے گھر میں آنے پر غیرت مندی نہیں دکھائی جا سکتی (کیونکہ آپ کی طرف سے ہمیں مکمل اطمینان ہے) آپ اپنے بھائی کے گھر میں داخل ہو کر بیٹھے کیوں نہیں، اور پانی وغیرہ بھی نہیں پیا؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے ایسا ہی کیا تھا، اہل خانہ نے ایک نوکرانی کو پانی لانے کے لئے بھیجا، اسے آنے میں دیر ہو گئی، یا تو اس وجہ سے کہ اسے جن لوگوں کے پاس بھیجا گیا تھا ان کے پاس بھی پانی نہیں ہو گا، یا تھوڑا ہونے کی وجہ سے وہ خود اس کے ضرورت مند ہوں گے، ادھر اہل خانہ نے اس پر لعنت بھیجی اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص پر لعنت بھیجی گئی ہو، لعنت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے، اگر وہاں تک پہنچنے کا راستہ مل جائے تو وہ اس پر واقع ہو جاتی ہے ورنہ بارگاہ الٰہی میں عرض کرتی ہے کہ پروردگار! مجھے فلاں شخص کی طرف متوجہ کیا گیا لیکن میں نے اس تک پہنچنے کا راستہ نہ پایا، اب کیا کروں؟ اس سے کہا جاتا ہے کہ جہاں سے آئی ہے وہیں واپس چلی جا۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں خادمہ کو کوئی عذر پیش آگیا ہو اور وہ لعنت واپس پلٹ کر یہیں آ جائے اور میں اس کا سبب بن جاؤں۔