مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
28. مسنَد عبد الله بن مسعود رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
0
حدیث نمبر: 3934
(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا فِطْرٌ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ:" يُجْمَعُ خَلْقُ أَحَدِكُمْ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ مَلَكًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ، فَيَقُولُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ وَأَجَلَهُ وَرِزْقَهُ، وَاكْتُبْهُ شَقِيًّا أَوْ سَعِيدًا". ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ عَبْدِ اللَّهِ بِيَدِهِ،" إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجَنَّةِ غَيْرُ ذِرَاعٍ، ثُمَّ يُدْرِكُهُ الشَّقَاءُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، فَيَمُوتُ، فَيَدْخُلُ النَّارَ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ عَبْدِ اللَّهِ بِيَدِهِ، إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ غَيْرُ ذِرَاعٍ، ثُمَّ تُدْرِكُهُ السَّعَادَةُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيَمُوتُ، فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم - جو کہ صادق و مصدوق ہیں - نے ہمیں یہ حدیث سنائی ہے کہ تمہاری خلقت کو شکم مادر میں چالیس دن تک جمع رکھا جاتا ہے، پھر اتنے ہی دن وہ جما ہوا خون ہوتا ہے، پھر اتنے ہی دن وہ گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے، پھر اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجا جاتا ہے اور وہ اس میں روح پھونک دیتا ہے، پھر چار چیزوں کا حکم دیا جاتا ہے، اس کے رزق کا، اس کی موت کا، اس کے اعمال کا اور یہ کہ یہ بدنصیب ہو گا یا خوش نصیب؟ اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں عبداللہ کی جان ہے، تم میں سے ایک شخص اہل جنت کی طرح اعمال کرتا رہتا ہے، جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو تقدیر غالب آ جاتی ہے اور وہ اہل جہنم والے اعمال کر کے جہنم میں داخل ہوجاتا ہے، اور ایک شخص جہنمیوں والے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس پر تقدیر غالب آ جاتی ہے اور اس کا خاتمہ جنتیوں والے اعمال پر ہو جاتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔