صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
29. بَابُ إِثْمِ مَنْ لاَ يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُ:
باب: اس شخص کا گناہ جس کا پڑوسی اس کے شر سے امن میں نہ رہتا ہو۔
{يُوبِقْهُنَّ} يُهْلِكْهُنَّ. {مَوْبِقًا} مَهْلِكًا.
‏‏‏‏ قرآن مجید میں جو لفظ «يوبقهن» ہے اس کے معنی ان کو ہلاک کر ڈالے۔ «موبقا» کے معنی ہلاکت۔
حدیث نمبر: 6016
حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ" قِيلَ: وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُ"، تَابَعَهُ شَبابةُ، وَأَسَدُ بْنُ مُوسَى، وَقَالَ : حُمَيْدُ بْنُ الْأَسْوَدِ، وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، وَشُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے ابوشریح نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کیا گیا کون: یا رسول اللہ؟ فرمایا وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔ اس حدیث کو شبابہ اور اسد بن موسیٰ نے بھی روایت کیا ہے اور حمید بن اسود اور عثمان بن عمر اور ابوبکر بن عیاش اور شعیب بن اسحاق نے اس حدیث کو ابن ابی ذئب سے یوں روایت کیا ہے، انہوں نے مقبری سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6016  
6016. حضرت ابو شریح ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: واللہ! وہ ایمان والا نہیں واللہ! اہو ایمان والا نہیں، واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کی گئی: اللہ کے رسول! کون؟ آپ نے فرمایا: جس کا ہمسایہ اس کی اذیتوں سے محفوظ نہ ہو۔ شبابہ اور اسد بن موسیٰ نے عاصم بن علی کی متابعت کی ہے اور حمید بن اسود، عثمان بن عمر، ابو بکر بن عیاش اور شعیب بن اسحاق نے ابن ابی ذئب سے اس نے سعید مقبری سے انہوں نے (اس حدیث کو) حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6016]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے پڑوسی کی عظمت کا پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ایسے انسان کے ایمان کی نفی کی ہے جس کی اذیتوں اور تکلیفوں نے پڑوسی کی ناک میں دم کر رکھا ہو، اگرچہ ایمان کی نفی سے مراد کمالِ ایمان کی نفی ہے، یعنی وہ شخص کامل ایمان والا نہیں ہے کیونکہ یہ ایک معصیت اور نافرمانی ہے اور معصیت کا مرتکب دائرۂ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے اپنے پڑوسی کی شکایت کی، آپ نے فرمایا:
جاؤ، صبر کرو۔
وہ پھر آپ کے پاس آیا یا تین مرتبہ آیا تو آپ نے فرمایا:
جا، اپنا سامان راستے میں رکھ دو۔
چنانچہ وہ گیا اور اپنا سازوسامان راستے میں رکھ دیا۔
لوگ اس سے پوچھنے لگے تو اس نے انھیں اپنے پڑوسی کے کردار سے آگاہ کیا۔
لوگ اس پڑوسی کو طعن وملامت کرنے لگے:
اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ایسا کرے، چنانچہ وہ ہمسایہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا:
اپنے گھر واپس چلے جاؤ، آئندہ میری طرف سے کوئی ناپسندیدہ حرکت نہیں دیکھو گے۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5153)
اس حدیث میں ہمسائے کی اذیتوں اور تکلیفوں سے علاج کا طریقہ بتایا گیا ہے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6016