مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
28. مسنَد عبد الله بن مسعود رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
0
حدیث نمبر: 4104
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وابن نمير ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ:" بَيْنَا رَجُلٌ يُحَدِّثُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَعْظَمِ، قَالَ: إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ نَزَلَ دُخَانٌ مِنَ السَّمَاءِ، فَأَخَذَ بِأَسْمَاعِ الْمُنَافِقِينَ وَأَبْصَارِهِمْ، وَأَخَذَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ. قَالَ مَسْرُوقٌ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَاسْتَوَى جَالِسًا، فَأَنْشَأَ يُحَدِّثُ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ سُئِلَ مِنْكُمْ عَنْ عِلْمٍ هُوَ عِنْدَهُ، فَلْيَقُلْ بِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ، فَلْيَقُلْ: اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لَا تَعْلَمُ: اللَّهُ أَعْلَمُ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلّ قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، إِنَّ قُرَيْشًا لَمَّا غَلَبُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، قَالَ: فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ، أَكَلُوا فِيهَا الْعِظَامَ وَالْمَيْتَةَ مِنَ الْجَهْدِ، حَتَّى جَعَلَ أَحَدُهُمْ يَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجُوعِ، فَقَالُوا: رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ سورة الدخان آية 12، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: إِنَّا إِنْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَادُوا، فَدَعَا رَبَّهُ، فَكَشَفَ عَنْهُمْ، فَعَادُوا، فَانْتَقَمَ اللَّهُ مِنْهُمْ يَوْمَ بَدْرٍ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى قَوْلِهِ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 10 - 16"، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَلَوْ كَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، مَا كَشَفَ عَنْهُمْ.
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جامع مسجد میں ایک شخص کہہ رہا تھا کہ قیامت کے دن آسمان سے ایک دھواں اترے گا، منافقین کی آنکھوں اور کانوں کو چھین لے گا اور مسلمانوں کے سانسوں میں داخل ہو کر زکام کی کیفیت پیدا کر دے گا، میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں یہ بات بتائی، وہ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، یہ بات سن کر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: لوگو! جو شخص کسی بات کو اچھی طرح جانتا ہو، وہ اسے بیان کر سکتا ہے، اور جسے اچھی طرح کسی بات کا علم نہ ہو، وہ کہہ دے کہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے، کیونکہ یہ بھی انسان کی دانائی کی دلیل ہے کہ وہ جس چیز کے متعلق نہیں جانتا، کہہ دے کہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ مذکورہ آیت کا نزول اس پس منطر میں ہوا تھا کہ جب قریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں حد سے آگے بڑھ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حضرت یوسف علیہ السلام کے دور جیسا قحط نازل ہونے کی بددعا فرمائی، چنانچہ قریش کو قحط سالی اور مشکلات نے آ گھیرا، یہاں تک کہ وہ ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے اور یہ کیفیت ہو گئی کہ جب کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا ہو تو بھوک کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں دکھائی دیتا، اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: «‏‏‏‏﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ o يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾» ‏‏‏‏ [الدخان: 10-11] اس دن کا انتظار کیجئے جب آسمان پر ایک واضح دھواں آئے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا یہ دردناک عذاب ہے۔ اس کے بعد کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بنو مضر کے لئے نزول باران کی دعا کیجئے، وہ تو ہلاک ہو رہے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی اور یہ آیت نازل ہوئی: «‏‏‏‏﴿إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا﴾» ‏‏‏‏ [الدخان: 15] ہم ان سے عذاب دور کر رہے ہیں۔ لیکن وہ خوش حالی ملنے کے بعد جب دوبارہ اپنی انہی حرکات میں لوٹ گئے تو یہ آیت نازل ہوئی کہ «‏‏‏‏﴿يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ﴾» ‏‏‏‏ [الدخان: 16] جس دن ہم انہیں بڑی مضبوطی سے پکڑ لیں گے، ہم انتقام لینے والے ہیں۔ اور اس سے مراد غزوہ بدر ہے، اگر وہ قیامت کا دن ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان سے اس عذاب کو دور نہ فرماتا۔