صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
39. بَابُ حُسْنِ الْخُلُقِ، وَالسَّخَاءِ، وَمَا يُكْرَهُ مِنَ الْبُخْلِ:
باب: خوش خلقی اور سخاوت کا بیان اور بخل کا ناپسندیدہ ہونا۔
حدیث نمبر: 6038
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، سَمِعَ سَلَّامَ بْنَ مِسْكِينٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًا، يَقُولُ: حَدَّثَنَا أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" خَدَمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ، فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ وَلَا لِمَ صَنَعْتَ وَلَا أَلَّا صَنَعْتَ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے سلام بن مسکین سے سنا، کہا کہ میں نے ثابت سے سنا، کہا کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی لیکن آپ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4773  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ اور تحمل و بردباری کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے بہتر اخلاق والے تھے، ایک دن آپ نے مجھے کسی ضرورت سے بھیجا تو میں نے کہا: قسم اللہ کی، میں نہیں جاؤں گا، حالانکہ میرے دل میں یہ بات تھی کہ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے، اس لیے ضرور جاؤں گا، چنانچہ میں نکلا یہاں تک کہ جب میں کچھ بچوں کے پاس سے گزر رہا تھا اور وہ بازار میں کھیل رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑ لی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مڑ کر دیکھا، آپ ہنس رہے تھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4773]
فوائد ومسائل:
رسول اللہﷺ حلم اور اخلاقِ حسنہ کی شاندار تصویر تھے اور بچوں کی نفسیات سے خوب آگاہ تھے۔
نیز حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی کبھی نبی اکرمﷺ کو ایسا موقع نہیں دیا تھا جو آپ کے ذوق اور مزاج کے لیئے گرانی کا باعث بنتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4773   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6038  
6038. حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں دس سال تک نبی ﷺ کی خدمت میں رہا ہوں لیکن آپ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ فلاں فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6038]
حدیث حاشیہ:
دس سال کی مدت کافی طویل ہوتی ہے مگر اس ساری مدت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی نہیں ڈانٹا نہ دھمکایا نہ کبھی آپ نے ان سے سخت کلامی فرمائی۔
یہ آپ کے حسن اخلاق کی دلیل ہے اور حقیقت ہے کہ آپ سے زیادہ دنیا میں کوئی شخص نرم دل خوش اخلاق پیدا نہیں ہوا۔
اللہ پاک اس پیارے رسول پر ہزارہا ہزار درود وسلام نازل فرمائے۔
آمین ثم آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6038   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6038  
6038. حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں دس سال تک نبی ﷺ کی خدمت میں رہا ہوں لیکن آپ نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ فلاں فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کام کیوں نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6038]
حدیث حاشیہ:
(1)
دس سال کی مدت کافی طویل ہوتی ہے، مگر اس مدت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو کبھی نہیں ڈانٹا اور نہ کبھی آپ نے سخت کلامی کی۔
یہ آپ کے حسن اخلاق کی واضح دلیل ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر کوئی شخص نرم دل، خندہ جبیں اور خوش کلام پیدا نہیں ہوا۔
(2)
اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی عظمت ظاہر ہوتی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم دینی معاملات میں کبھی مداہنت نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ معاملات امر بالمعروف اور نہی اعن المنکر کی قبیل سے ہیں۔
بہرحال آپ اپنے خادموں سے حسن سلوک سے پیش آتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6038