مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
28. مسنَد عبد الله بن مسعود رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
0
حدیث نمبر: 4312
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ:" بَيْنَمَا رَجُلٌ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، كَانَ فِي مَمْلَكَتِهِ، فَتَفَكَّرَ، فَعَلِمَ أَنَّ ذَلِكَ مُنْقَطِعٌ عَنْهُ، وَأَنَّ مَا هُوَ فِيهِ قَدْ شَغَلَهُ عَنْ عِبَادَةِ رَبِّهِ، فَتَسَرَّبَ فَانْسَابَ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنْ قَصْرِهِ، فَأَصْبَحَ فِي مَمْلَكَةِ غَيْرِهِ، وَأَتَى سَاحِلَ الْبَحْرِ، وَكَانَ بِهِ يَضْرِبُ اللَّبِنَ بِالْأَجْرِ، فَيَأْكُلُ وَيَتَصَدَّقُ بِالْفَضْلِ، فَلَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ، حَتَّى رَقِيَ أَمْرُهُ إِلَى مَلِكِهِمْ، وَعِبَادَتُهُ وَفَضْلُهُ، فَأَرْسَلَ مَلِكُهُمْ إِلَيْهِ أَنْ يَأْتِيَهُ، فَأَبَى أَنْ يَأْتِيَهُ، فَأَعَادَ ثُمَّ أَعَادَ إِلَيْهِ، فَأَبَى أَنْ يَأْتِيَهُ، وَقَالَ: مَا لَهُ وَمَالِي؟! قَالَ: فَرَكِبَ الْمَلِكُ، فَلَمَّا رَآهُ الرَّجُلُ وَلَّى هَارِبًا، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الْمَلِكُ رَكَضَ فِي أَثَرِهِ، فَلَمْ يُدْرِكْهُ، قَالَ: فَنَادَاهُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ مِنِّي بَأْسٌ، فَأَقَامَ حَتَّى أَدْرَكَهُ، فَقَالَ لَهُ: مَنْ أَنْتَ رَحِمَكَ اللَّهُ؟ قَالَ: أَنَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، صَاحِبُ مُلْكِ كَذَا وَكَذَا، تفكرت في أمري، فعلمت أن ما أَنَا فِيهِ مُنْقَطِعٌ، فَإِنَّهُ قَدْ شَغَلَنِي عَنْ عِبَادَةِ رَبِّي، فَتَرَكْتُهُ، وَجِئْتُ هَاهُنَا أَعْبُدُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ: مَا أَنْتَ بِأَحْوَجَ إِلَى مَا صَنَعْتَ مِنِّي، قَالَ: ثُمَّ نَزَلَ عَنْ دَابَّتِهِ، فَسَيَّبَهَا، ثُمَّ تَبِعَهُ، فَكَانَا جَمِيعًا يَعْبُدَانِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَدَعَوَا اللَّهَ أَنْ يُمِيتَهُمَا جَمِيعًا، قَالَ: فَمَاتَا"، قَالَ عَبْدُ الله: لَوْ كُنْتُ بِرُمَيْلَةِ مِصْرَ، لَأَرَيْتُكُمْ قُبُورَهُمَا بِالنَّعْتِ الَّذِي نَعَتَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ گزشتہ امتوں میں تم سے پہلے ایک بادشاہ گزرا ہے جو اپنی مملکت میں رہا کرتا تھا، ایک دن وہ غور و فکر کر رہا تھا تو اسے یہ بات سمجھ آئی کہ اس کی حکومت ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گی اور وہ جن کاموں میں الجھا ہوا ہے ان کی وجہ سے وہ اپنے رب کی عبادت کرنے سے محروم ہے، یہ سوچ کر ایک دن وہ رات کے وقت چپکے سے اپنے محل سے نکلا اور دوسرے ملک چلا گیا، وہاں سمندر کے کنارے رہائش اختیار کر لی اور اپنا معمول یہ بنا لیا کہ اینٹیں ڈھوتا، جو مزدوری حاصل ہوتی، اس میں سے کچھ سے کھانے کا انتظام کر لیتا اور باقی سب اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیتا۔ وہ اپنے اس معمول پر ثابت قدمی سے عمل کرتا رہا، یہاں تک کہ ہوتے ہوتے یہ خبر اس ملک کے بادشاہ کو ہوئی، اس کی عبادت اور فضیلت کا حال بھی اسے معلوم ہوا تو اس ملک کے بادشاہ نے اسے اپنے پاس بلا بھیجا، لیکن اس نے جانے سے انکار کر دیا، بادشاہ نے دوبارہ اس کو پیغام بھیجا لیکن اس نے پھر انکار کر دیا اور کہنے لگا کہ بادشاہ کو مجھ سے کیا کام؟ بادشاہ کو پتہ چلا تو وہ اپنی سواری پر سوار ہو کر اس کی طرف روانہ ہوا، جب اس شخص نے بادشاہ کو دیکھا تو بھاگنے لگا، بادشاہ نے یہ دیکھ کر اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا لیکن اسے نہ پا سکا، بالآخر اس نے دور ہی سے اسے آواز دی کہ اے اللہ کے بندے! آپ کو مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں (میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا)، چنانچہ وہ اپنی جگہ کھڑا ہو گیا اور بادشاہ اس کے پاس پہنچ گیا، بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ کون ہیں؟ اس نے کہا کہ میں فلاں بن فلاں ہوں، فلاں ملک کا بادشاہ تھا، میں نے اپنے متعلق ایک مرتبہ غور و فکر کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میری حکومت تو ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گی اور اس حکومت کی وجہ سے میں اپنے رب کی عبادت سے محروم ہوں، اس لئے میں اپنی حکومت چھوڑ چھاڑ کر یہاں آ گیا ہوں تاکہ اپنے رب کی عبادت کر سکوں۔ وہ بادشاہ کہنے لگا کہ آپ نے جو کچھ کیا، مجھے تو اس سے بھی زیادہ ایسا کرنے کی ضرورت ہے، چنانچہ وہ اپنی سواری سے اترا، اسے جنگل میں چھوڑا اور اس کی اتباع اختیار کر لی، اور وہ دونوں اکٹھے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے لگے، ان دونوں نے اللہ سے یہ دعا کی تھی کہ ان دونوں کو موت اکٹھی آئے، چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں مصر کے اس چھوٹے سے ٹیلے پر ہوتا تو تمہیں ان دونوں کی قبریں دکھاتا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اس کی علامات ذکر فرمائی تھیں۔