مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
29. مسنَد عَبدِ اللَّهِ بنِ عمَرَ بنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنهمَا
0
حدیث نمبر: 4873
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى نَافِعٍ أَسْأَلُهُ، مَا أَقْعَدَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْغَزْوِ؟ أَو عَنِ الْقَوْمِ إِذَا غَزَوْا، بِمَا يَدْعُونَ الْعَدُوَّ قَبْلَ أَنْ يُقَاتِلُوهُمْ؟ وَهَلْ يَحْمِلُ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ فِي الْكَتِيبَةِ بِغَيْرِ إِذْنِ إِمَامِهِ؟ فَكَتَبَ إِلَيَّ إِنَّ ابْنَ عُمَر قَدْ كَانَ يَغْزُو وَلَدُهُ، وَيَحْمِلُ عَلَى الظَّهْرِ، وَكَانَ يَقُولُ: إِنَّ" أَفْضَلَ الْعَمَلِ بَعْدَ الصَّلَاةِ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى"، وَمَا أَقْعَدَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْغَزْوِ إِلَّا وَصَايَا لِعُمَرَ وَصِبْيَانٌ صِغَارٌ وَضَيْعَةٌ كَثِيرَةٌ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَدْ" أَغَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَنِي الْمُصْطَلِقِ وَهُمْ غَارُّونَ يَسْقُونَ عَلَى نَعَمِهِمْ، فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَهُمْ، وَسَبَى سَبَايَاهُمْ، وَأَصَابَ جُوَيْرِيَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ، قَالَ: فَحَدَّثَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ ابْنُ عُمَرَ، وَكَانَ فِي ذَلِكَ الْجَيْشِ، وَإِنَّمَا كَانُوا يُدْعَوْنَ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الرَّجُلُ فَلَا يَحْمِلُ عَلَى الْكَتِيبَةِ إِلَّا بِإِذْنِ إِمَامِهِ".
ابن عون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے خط لکھ کر سیدنا نافع رحمہ اللہ سے یہ سوال پوچھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جہاد میں شرکت کیوں چھوڑ دی ہے، جبکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے وہ اس کی دعا کرتے تھے اور کیا کوئی شخص اپنے امیر کی اجازت کے بغیر لشکر پر حملہ کر سکتا ہے؟ انہوں نے مجھے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما تو ہر جہاد میں شریک ہوئے ہیں اور جانور کی پشت پر سوار رہے ہیں اور وہ تو خود فرماتے تھے کہ نماز کے بعد سب سے افضل عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے، اب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا جہاد میں شریک نہ ہونا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کچھ وصیتوں کو پورا کرنے میں مصروفیت، چھوٹے بچوں اور زیادہ زمینوں کی دیکھ بھال کی وجہ سے ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنومصطلق پر اس وقت حملہ کیا تھا جبکہ وہ غافل تھے اور اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جنگجو افراد کو قتل کروا دیا، ان کی عورتوں کو قیدی بنا لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں سیدہ جویرہ رضی اللہ عنہ آ گئیں۔ یہ حدیث مجھے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بتائی ہے جو کہ اس لشکر میں شریک تھے اور وہ لوگ پہلے اسلام کی دعوت دیتے تھے باقی کوئی شخص اپنے امیر کی اجازت کے بغیر کسی لشکر پر حملہ نہیں کر سکتا۔