صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
87. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الْغَضَبِ وَالْجَزَعِ عِنْدَ الضَّيْفِ:
باب: مہمان کے سامنے غصہ اور رنج کا ظاہر کرنا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 6140
حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ أَبَا بَكْرٍ تَضَيَّفَ رَهْطًا، فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ: دُونَكَ أَضْيَافَكَ فَإِنِّي مُنْطَلِقٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَافْرُغْ مِنْ قِرَاهُمْ قَبْلَ أَنْ أَجِيءَ، فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَأَتَاهُمْ بِمَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: اطْعَمُوا، فَقَالُوا: أَيْنَ رَبُّ مَنْزِلِنَا؟ قَالَ: اطْعَمُوا، قَالُوا: مَا نَحْنُ بِآكِلِينَ حَتَّى يَجِيءَ رَبُّ مَنْزِلِنَا، قَالَ: اقْبَلُوا عَنَّا قِرَاكُمْ فَإِنَّهُ إِنْ جَاءَ وَلَمْ تَطْعَمُوا لَنَلْقَيَنَّ مِنْهُ فَأَبَوْا فَعَرَفْتُ أَنَّهُ يَجِدُ عَلَيَّ، فَلَمَّا جَاءَ تَنَحَّيْتُ عَنْهُ، فَقَالَ: مَا صَنَعْتُمْ؟ فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَسَكَتُّ، ثُمَّ قَالَ: يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَسَكَتُّ، فَقَالَ: يَا غُنْثَرُ أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ إِنْ كُنْتَ تَسْمَعُ صَوْتِي لَمَّا جِئْتَ فَخَرَجْتُ، فَقُلْتُ: سَلْ أَضْيَافَكَ، فَقَالُوا: صَدَقَ أَتَانَا بِهِ قَالَ: فَإِنَّمَا انْتَظَرْتُمُونِي، وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ اللَّيْلَةَ، فَقَالَ الْآخَرُونَ: وَاللَّهِ لَا نَطْعَمُهُ حَتَّى تَطْعَمَهُ، قَالَ: لَمْ أَرَ فِي الشَّرِّ كَاللَّيْلَةِ، وَيْلَكُمْ مَا أَنْتُمْ لِمَ لَا تَقْبَلُونَ عَنَّا قِرَاكُمْ، هَاتِ طَعَامَكَ فَجَاءَهُ فَوَضَعَ يَدَهُ، فَقَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ الْأُولَى لِلشَّيْطَانِ فَأَكَلَ وَأَكَلُوا".
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید الجریری نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کی میزبانی کی اور عبدالرحمٰن سے کہا کہ مہمانوں کا پوری طرح خیال رکھنا کیونکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا، میرے آنے سے پہلے انہیں کھانا کھلا دینا۔ چنانچہ عبدالرحمٰن کھانا مہمانوں کے پاس لائے اور کہا کہ کھانا کھائیے۔ انہوں نے پوچھا کہ ہمارے گھر کے مالک کہاں ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ لوگ کھانا کھا لیں۔ مہمانوں نے کہا کہ جب تک ہمارے میزبان نہ آ جائیں ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ہماری درخواست قبول کر لیجئے کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آنے تک اگر آپ لوگ کھانے سے فارغ نہیں ہو گئے تو ہمیں ان کی خفگی کا سامنا ہو گا۔ انہوں نے اس پر بھی انکار کیا۔ میں جانتا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ پر ناراض ہوں گے۔ اس لیے جب وہ آئے میں ان سے بچنے لگا۔ انہوں نے پوچھا: تم لوگوں نے کیا کیا؟ گھر والوں نے انہیں بتایا تو انہوں نے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو پکارا! میں خاموش رہا۔ پھر انہوں نے پکارا! عبدالرحمٰن! میں اس مرتبہ بھی خاموش رہا۔ پھر انہوں نے کہا ارے پاجی میں تجھ کو قسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آواز سن رہا ہے تو باہر آ جا، میں باہر نکلا اور عرض کیا کہ آپ اپنے مہمانوں سے پوچھ لیں۔ مہمانوں نے بھی کہا عبدالرحمٰن سچ کہہ رہا ہے۔ وہ کھانا ہمارے پاس لائے تھے۔ آخر والد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگوں نے میرا انتظار کیا، اللہ کی قسم! میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گا۔ مہمانوں نے بھی قسم کھا لی اللہ کی قسم جب تک آپ نہ کھائیں ہم بھی نہ کھائیں گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا بھائی میں نے ایسی خراب بات کبھی نہیں دیکھی۔ مہمانو! تم لوگ ہماری میزبانی سے کیوں انکار کرتے ہو۔ خیر عبدالرحمٰن کھانا لا، وہ کھانا لائے تو آپ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا، اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، پہلی حالت (کھانا نہ کھانے کی قسم) شیطان کی طرف سے تھی۔ چنانچہ انہوں نے کھانا کھایا اور ان کے ساتھ مہمانوں نے بھی کھایا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6140  
6140. حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے چند لوگوں کو مہمان بنایا اور عبدالرحمن سے کہا: ان مہمانوں کا پوری طرح خیال رکھنا کیونکہ میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں جا رہا ہوں۔ میرے آنے سے پہلے پہلے انہیں کھانا کھلا دینا، چنانچہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ گئے اور جو کھانا حاضر تھا وہ مہمانوں کے سامنے پیش کر دیا اور کہا کہ کھانا تناول فرمائیں مہمانوں نے کہا: صاحب خانہ کہاں ہیں؟ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کھانا کھائیں۔ انہوں نے کہا: جب تک صاحب خانہ نہ آ جائیں ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ہماری درخواست قبول کریں کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے واپس آنے تک اگر آپ حضرات کھانے سے فارغ نہ ہوئے تو مجھے ان کی طرف سے خفگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کھانے سے انکار ہی کیا۔ میں جانتا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ مجھ پر ناراض ہوں گے اس لیے جب وہ تشریف لائے تو میں ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6140]
حدیث حاشیہ:
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی آخرانسان تھے، مہمانوں کوبھوکا دیکھ کر گھر والوں پر خفگی کا اظہار کرنے لگے، مہمانوں نے جب آپ کا یہ حال دیکھا تو وہ بھی کھانے سے قسم کھا بیٹھے۔
آخر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خود اپنی قسم توڑ کر کھانا کھایا اور مہمانوں کو بھی کھلایا، قسم کھانے کو آپ نے شیطان کی طرف قرار دیا۔
اسی سے باب کا مطلب نکلتا ہے، کیوں کہ آپ نے مہمانوں کے سامنے جو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ پر غصہ کیا تھا اور قسم کھا لی تھی اس کو شیطان کا اغوا قرار دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6140   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6140  
6140. حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے چند لوگوں کو مہمان بنایا اور عبدالرحمن سے کہا: ان مہمانوں کا پوری طرح خیال رکھنا کیونکہ میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں جا رہا ہوں۔ میرے آنے سے پہلے پہلے انہیں کھانا کھلا دینا، چنانچہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ گئے اور جو کھانا حاضر تھا وہ مہمانوں کے سامنے پیش کر دیا اور کہا کہ کھانا تناول فرمائیں مہمانوں نے کہا: صاحب خانہ کہاں ہیں؟ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کھانا کھائیں۔ انہوں نے کہا: جب تک صاحب خانہ نہ آ جائیں ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ہماری درخواست قبول کریں کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے واپس آنے تک اگر آپ حضرات کھانے سے فارغ نہ ہوئے تو مجھے ان کی طرف سے خفگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کھانے سے انکار ہی کیا۔ میں جانتا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ مجھ پر ناراض ہوں گے اس لیے جب وہ تشریف لائے تو میں ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6140]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ بات اخلاق سے ہے کہ مہمانوں کے سامنے اپنے اہل خانہ پر کسی قسم کی ناراضی کا اظہار نہ کیا جائے بلکہ خوش مزاجی اور خوش طبعی کو اختیار کیا جائے، اس سلسلے میں جو کچھ ہوا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے شیطان کی طرف منسوب کیا بلکہ آپ نے اس امر کا برملا اظہار کیا کہ آج رات ہمیں نحوست کا سامنا کرنا پڑا۔
(2)
بہرحال میزبان کا فرض ہے کہ وہ امکانی حد تک مہمان کا اکرام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے اور مہمان کا بھی فرض ہے کہ وہ میزبان کے لیے کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہ بنے۔
یہ اسلامی آداب و اخلاق اور دینی معاشرت کی باتیں ہیں، ہمیں انہیں اختیار کر کے دوسروں کے لیے اچھا نمونہ پیش کرنا ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6140