مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
29. مسنَد عَبدِ اللَّهِ بنِ عمَرَ بنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنهمَا
0
حدیث نمبر: 5546
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سَلَّامٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ ، سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ، يَقُولُ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ إِذَا سَمِعَ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، أَوْ شَهِدَ مَعَهُ مَشْهَدًا، لَمْ يُقَصِّرْ دُونَهُ أَوْ يَعْدُوهُ، قَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ وَعُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ يقص على أهل مكة، إذ قَالَ عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ مَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ الشَّاةِ بَيْنَ الْغَنَمَيْنِ، إِنْ أَقْبَلَتْ إِلَى هَذِهِ الْغَنَمِ نَطَحَتْهَا، وَإِنْ أَقْبَلَتْ إِلَى هَذِهِ نَطَحَتْهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ : لَيْسَ هَكَذَا، فَغَضِبَ عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ، وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، كَيْفَ قَالَ رَحِمَكَ اللَّهُ؟ فَقَالَ:" مَثَلُ الْمُنَافِقِ مَثَلُ الشَّاةِ بَيْنَ الرَّبِيضَيْنِ، إِنْ أَقْبَلَتْ إِلَى ذَا الرَّبِيضِ نَطَحَتْهَا، وَإِنْ أَقْبَلَتْ إِلَى ذَا الرَّبِيضِ نَطَحَتْهَا"، فَقَالَ لَهُ: رَحِمَكَ اللَّهُ، هُمَا وَاحِدٌ، قَالَ: كَذَا سَمِعْتُ، كذا سمعتُ.
ابوجعفر محمد بن علی رحمہ اللہ کہتے ہیں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کوئی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن لیتے یا کسی موقع پر موجود ہوتے تو اس میں (بیان کرتے ہوئے) کمی بیشی بالکل نہیں کرتے تھے کہ ایک مرتبہ عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی وہاں تشریف فرما تھے، عبید بن عمیر کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: منافق کی مثال اس بکر ی کی سی ہے جو دور ریوڑوں کے درمیان ہو، اس ریوڑ کے پاس جائے تو وہاں کی بکریاں اسے سینگ مار مار کر بھگا دیں اور اس ریوڑ کے پاس جائے تو وہاں کی بکریاں اسے سینگ مار مار کر بھگا دیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ حدیث اس طرح نہیں ہے اس پر عبید بن عمر کو ناگواری ہوئی، اس مجلس میں عبداللہ بن صفوان بھی تھے، وہ کہنے لگے کہ اے ابو عبدالرحمن! آپ پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح فرمایا تھا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مذکورہ حدیث دوبارہ سنا دی اور اس میں «غنمين» کے بجائے «ربيضين» کا لفظ استعمال کیا تو عبداللہ نے کہا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے اس دونوں کا مطلب تو ایک ہی ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔