صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
2. بَابُ الأَذَانُ مَثْنَى مَثْنَى:
باب: اس بارے میں کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ دہرائے جائیں۔
حدیث نمبر: 606
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمَّا كَثُرَ النَّاسُ، قَالَ:" ذَكَرُوا أَنْ يَعْلَمُوا وَقْتَ الصَّلَاةِ بِشَيْءٍ يَعْرِفُونَهُ، فَذَكَرُوا أَنْ يُورُوا نَارًا أَوْ يَضْرِبُوا نَاقُوسًا، فَأُمِرَ بِلَالٌ أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ وَأَنْ يُوتِرَ الْإِقَامَةَ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مہران حذاء نے ابوقلابہ عبدالرحمٰن بن زید حرمی سے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ جب مسلمان زیادہ ہو گئے تو مشورہ ہوا کہ کسی ایسی چیز کے ذریعہ نماز کے وقت کا اعلان ہو جسے سب لوگ سمجھ لیں۔ کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ آگ روشن کی جائے۔ یا نرسنگا کے ذریعہ اعلان کریں۔ لیکن آخر میں بلال کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو دفعہ کہیں اور تکبیر کے ایک ایک دفعہ۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 606  
606. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب مسلمان (مدینہ طیبہ میں) زیادہ ہو گئے تو مشورہ ہوا کہ کسی ایسی چیز کے ذریعے سے نماز کے وقت کا اعلان ہو جسے سب لوگ سمجھ لیں۔ کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آگ کا الاؤ روشن کر دیا جائے یا ناقوس کے ذریعے سے اعلان کر دیا جائے۔ آخرکار بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ کہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:606]
حدیث حاشیہ:
اذان کے بارے میں بعض روایات میں پندرہ کلمات وارد ہوئے ہیں، جیسا کہ عوام میں اذان کا مروجہ طریقہ ہے۔
بعض روایات میں انیس کلمات آئے ہیں اوریہ اس بناپر کہ اذان ترجیع کے ساتھ دی جائے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ شہادت کے ہردو کلموں کو پہلے دو مرتبہ آہستہ آہستہ کہا جائے، پھر ان ہی کو دو دو مرتبہ بلند آواز سے کہا جائے۔
حضرت امام ترمذی ؒ نے ان لفظوں میں باب منعقد کیاہے۔
باب ماجاءفي الترجیع في الأذان۔
یعنی ترجیع کے ساتھ اذان کہنے کے بیان میں۔
پھر آپ یہاں حدیث ابومحذورہ ؓ کو لائے ہیں۔
جس سے اذان میں ترجیع ثابت ہے۔
چنانچہ خود امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں:
قال أبوعیسیٰ حدیث أبي محذورة في الأذان حدیث صحیح وقد روي عنه من غیروجه وعلیه العمل بمکة وهوقول الشافعي۔
یعنی اذان کے بارے میں ابومحذورہ کی حدیث صحیح ہے۔
جو مختلف طرق سے مروی ہے۔
مکہ شریف میں اسی پر عمل ہے اورامام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔
امام نووی حدیث ابومحذورہ کے ذیل میں فرماتے ہیں:
وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ حُجَّةٌ بَيِّنَةٌ وَدَلَالَةٌ وَاضِحَةٌ لِمَذْهَبِ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَجُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ أَنَّ التَّرْجِيعَ فِي الْأَذَانِ ثَابِتٌ مَشْرُوعٌ وَهُوَ الْعَوْدُ إِلَى الشَّهَادَتَيْنِ مَرَّتَيْنِ بِرَفْعِ الصَّوْتِ بَعْدَ قَوْلِهِمَا مَرَّتَيْنِ بِخَفْضِ الصَّوْتِ۔
(نووی، شرح مسلم)
یعنی حدیث ابی محذورہ روشن واضح دلیل ہے کہ اذان میں ترجیع مشروع ہے اوروہ یہ ہے کہ پہلے کلمات شہادتین کو آہستہ آواز سے دودو مرتبہ ادا کرکے بعد میں بلند آواز سے پھر دو دومرتبہ دہرایا جائے۔
امام مالک اورامام شافعی اورجمہور علماءکا یہی مذہب ہے۔
حضرت ابومحذورہ کی روایت ترمذی کے علاوہ مسلم اور ابوداؤد میں بھی تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔
فقہائے احناف رحمہم اللہ اجمعین ترجیع کے قائل نہیں ہیں اورانھوں نے روایات ابومحذورہ کی مختلف توجیہات کی ہیں۔
ترجیع کے ساتھ اذان کہنے کا بیان:
المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وأجاب عن هذہ الروایات من لم یقل بالترجیع بأجوبة کلها مخدوشة واهیة۔
(تحفۃ الاحوذی)
یعنی جوحضرات ترجیع کے قائل نہیں ہیں انھوں نے روایات ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔
جوسب مخدوش اورواہیات ہیں۔
کوئی ان میں قابل توجہ نہیں۔
ان کی بڑی دلیل عبداللہ بن زید کی حدیث ہے۔
جس میں ترجیع کا ذکر نہیں ہے۔
علامہ مبارک پوری مرحوم اس بارے میں فرماتے ہیں کہ حدیث عبداللہ بن زید میں فجر کی اذان میں کلمات الصلوٰة خیرمن النوم کا بھی ذکر نہیں ہے۔
اوریہ زیادتی بھی حدیث ابومحذورہ ہی سے ثابت ہے۔
جسے محترم فقہائے احناف نے قبول فرمالیاہے۔
پھر کوئی وجہ نہیں کہ ترجیع کے بارے میں بھی حدیث ابومحذورہ کی زیادتی کو قبول نہ کیا جائے۔
قلت فلذلك یقال إن الترجیع وإن لم یکن في حدیث عبداللہ بن زید فقد علمه رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ذلك أبامحذورة بعد ذلك فلما علمه رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم أبامحذورة کان زیادة علی ما فی حدیث عبداللہ بن زید فوجب استعماله۔
(تحفة الأحوذي)
یعنی اگرچہ ترجیع کی زیادتی حدیث عبداللہ بن زید میں مذکور نہیں ہے مگرجس طرح فجر میں آپ نے ابومحذورہ کو الصلوٰة خیرمن النوم کے الفاظ کی زیادتی تعلیم فرمائی ایسے ہی آپ نے ترجیع کی بھی زیادتی تعلیم فرمائی۔
پس اس کا استعمال ضروری ہوا، لہٰذا ایک ہی حدیث کے نصف حصہ کو لینا اورنصف کا انکار کردینا قرین انصاف نہیں ہے۔
حضرت علامہ انورشاہ کشمیری:
صاحب تفہیم البخاری (دیوبندی)
ترجیع کی اذان کے بارے میں حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ان لفظوں میں بیان فرماتے ہیں:
حضرت ابومحذورہ جنھیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد مسجدالحرام کا مؤذن مقرر کیاتھا وہ اسی طرح (ترجیع کے ساتھ)
اذان دیتے تھے جس طرح امام شافعی ؒ کا مسلک ہے۔
اوران کا یہ بھی بیان تھاکہ نبی کریم ﷺ نے انھیں اسی طرح سکھایاتھا۔
نبی کریم ﷺ کی حیات میں برابر آپ اسی طرح (ترجیع سے)
اذان دیتے رہے اورپھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طویل دورمیں بھی آپ کا یہی عمل رہا کسی نے انھیں اس سے نہیں روکا۔
اس کے بعد بھی مکہ میں اسی طرح اذان دی جاتی رہی۔
لہٰذا اذان کا یہ طریقہ مکروہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔
صاحب بحرالرائق نے یہی فیصلہ کیاہے اوراس آخری دورمیں حنفیت اورحدیث کے امام حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس فیصلہ کو درست کہاہے۔
(تفہیم البخاری، کتاب الاذان، پ3، ص: 50)
یہ مختصر تفصیل اس لیے دی گئی کہ ہمارے معزز/حنفی بھائیوںکی اکثریت اوّل تو ترجیع کی اذان سے واقف ہی نہیں اور اگر اتفاقاً کہیں کسی اہل حدیث مسجد میں اسے سن پاتے ہیں تو حیرت سے سنتے ہیں۔
بلکہ بعض لوگ انکار کرتے ہوئے ناک بھوں بھی چڑھانے لگ جاتے ہیں۔
ان پر واضح ہونا چاہئیے کہ وہ اپنی ناواقفیت کی بناپر ایسا کررہے ہیں۔
رہی یہ بحث کہ ترجیع کے ساتھ اذان دینا افضل ہے یابغیرترجیع کے جیسا کہ عام طور پر مروج ہے اس لفظی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہر دوطریقے جائز درست ہیں۔
باہمی اتفاق اوررواداری کے لیے اتناہی سمجھ لینا کافی وافی ہے۔
حضرت مولانا عبیداللہ شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قلت هذا هوالحق إن الوجهين جائزان ثابتان مشروعان سنتان من سنن النبي صلی اللہ علیه وسلم۔
(مرعاة المفاتیح، ج1، ص: 422)
یعنی حق یہ ہے کہ ہر دو طریقے جائز اورثابت اورآنحضرت ﷺ کی سنتوں میں سے ہیں۔
پس اس بارے میں باہمی طور پر لڑنے جھگڑنے کی کوئی بات ہی نہیں۔
اللہ پاک مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ ان فروعی مسائل پر لڑنا چھوڑکر باہمی اتفاق پیدا کریں۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 606   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:606  
606. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب مسلمان (مدینہ طیبہ میں) زیادہ ہو گئے تو مشورہ ہوا کہ کسی ایسی چیز کے ذریعے سے نماز کے وقت کا اعلان ہو جسے سب لوگ سمجھ لیں۔ کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ آگ کا الاؤ روشن کر دیا جائے یا ناقوس کے ذریعے سے اعلان کر دیا جائے۔ آخرکار بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے کلمات ایک ایک مرتبہ کہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:606]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ بعض اوقات قائم کردہ عنوان کے ذریعے سے حدیث کے معنی کو متعین کرتے ہیں۔
اس قسم کے عنوان کوترجمۂ شارحہ کہا جاتا ہے،
چنانچہ حدیث میں ہے کہ اذان میں شفع ہو اور عربی زبان اس کے معنی ملا دینا ہیں۔
ممکن ہے کہ کوئی خیال کرے کہ اس سے مراد ایک کلمے کو دوسرے سے ملا کر کہنا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان سے اس حدیث کے معنی متعین کیے ہیں کہ اس سے مراد کلمات اذان کو دو مرتبہ کہنا ہے۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 606