مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
29. مسنَد عَبدِ اللَّهِ بنِ عمَرَ بنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنهمَا
0
حدیث نمبر: 5720
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ صَالِحٍ ، وَاسْمُهُ الَّذِي يعرف به نعيم بن النحام، وكان رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمَّاهُ صَالِحًا، أَخْبَرَهُ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ , قَالَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: اخْطُبْ عَلَيَّ ابْنَةَ صَالِحٍ , فَقَالَ: إِنَّ لَهُ يَتَامَى، وَلَمْ يَكُنْ لِيُؤْثِرَنَا عَلَيْهِمْ، فَانْطَلَقَ عَبْدُ اللَّهِ إِلَى عَمِّهِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ لِيَخْطُبَ، فَانْطَلَقَ زَيْدٌ إِلَى صَالِحٍ، فَقَالَ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ يَخْطُبُ ابْنَتَكَ، فَقَالَ: لِي يَتَامَى، وَلَمْ أَكُنْ لِأُتْرِبَ لَحْمِي , وَأَرْفَعَ لَحْمَكُمْ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَنْكَحْتُهَا فُلَانًا , وَكَانَ هَوَى أُمِّهَا إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، خَطَبَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ابْنَتِي، فَأَنْكَحَهَا أَبُوهَا يَتِيمًا فِي حَجْرِهِ، وَلَمْ يُؤَامِرْهَا، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى صَالِحٍ، فَقَالَ:" أَنْكَحْتَ ابْنَتَكَ وَلَمْ تُؤَامِرْهَا؟" , فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ:" أَشِيرُوا عَلَى النِّسَاءِ فِي أَنْفُسِهِنَّ"، وَهِيَ بِكْرٌ، فَقَالَ صَالِحٌ: فَإِنَّمَا فَعَلْتُ هَذَا لِمَا يُصْدِقُهَا ابْنُ عُمَرَ، فَإِنَّ لَهُ فِي مَالِي مِثْلَ مَا أَعْطَاهَا.
نعیم بن نحام رضی اللہ عنہ جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صالح کا خطاب دیا تھا کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد سے درخواست کی کہ صالح کی بیٹی سے میرے لئے پیغام نکاح بھیجیں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اس کے یتیم بھتیجے ہیں، وہ ہمیں ان پر ترجیح نہیں دیں گے، ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے چچا زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے اور ان سے بھی پیغام نکاح بھیجنے کے لئے کہا، چنانچہ زید رضی اللہ عنہ خود ہی صالح رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے اور فرمایا کہ مجھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیٹی کے لئے اپنی طرف سے نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے، صالح رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے یتیم بھتیجے موجود ہیں، میں اپنے گوشت کو نیچا کر کے آپ کے گوشت کو اونچا نہیں کر سکتا، میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اس لڑکی کا نکاح میں نے فلاں شخص سے کر دیا۔ لڑکی کی ماں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس کی شادی کرنا چاہتی تھی، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی، اے اللہ کے نبی! ابن عمر رضی اللہ عنہما نے میری بیٹی کا اپنے لئے رشتہ مانگا تھا لیکن اس کے باپ نے اپنی پرورش میں موجود یتیم بھتیجے سے اس کا نکاح کر دیا اور مجھ سے مشورہ تک نہیں کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صالح کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ کیا تم نے اپنی بیٹی کا رشتہ اپنی بیوی کے مشورے کے بغیر ہی طے کر دیا؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں ایسا ہی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں سے ان کے متعلق مشورہ کر لیا کرو جب کہ وہ کنواری بھی ہوں۔ صالح رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں نے یہ کام صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جو مہر اسے دیں گے، میرے پاس ان کا اتنا ہی مال پہلے سے موجود ہے (میں ان کا مقروض ہوں، اس لئے مجھے اس حال میں اپنی بیٹی ان کے نکاح میں دینا گوارا نہ ہوا)۔