صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
94. بَابُ مَا جَاءَ فِي زَعَمُوا:
باب: «زعموا» کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 6158
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" مَنْ هَذِهِ؟" فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ:" مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ"، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ قَامَ فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا قَدْ أَجَرْتُهُ فُلَانُ بْنُ هُبَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ" قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ: وَذَاكَ ضُحًى.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر نے، ان سے ام ہانی بنت ابی طالب کے غلام ابو مرہ نے خبر دی کہ انہوں نے ام ہانی بنت ابی طالب سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے ہیں اور آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کر دیا ہے۔ میں نے سلام کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ام ہانی! مرحبا ہو۔ جب آپ غسل کر چکے تو کھڑے ہو کر آٹھ رکعات پڑھیں۔ آپ اس وقت ایک کپڑے میں جسم مبارک کو لپیٹے ہوئے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے بھائی (علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) کا خیال ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جسے میں نے امان دے رکھی ہے۔ یعنی فلاں بن ہبیرہ کو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام ہانی جسے تم نے امان دی اسے ہم نے بھی امان دی۔ ام ہانی نے بیان کیا کہ یہ نماز چاشت کی تھی۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1669  
´پردے کے مقام پر غسل کرنا`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ، وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ، قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ قُلْتُ: أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ . . .»
. . . ‏‏‏‏ ابوطالب کی بیٹی ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہاتے پایا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ایک کپڑے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ کئے ہوئے تھیں۔ پھر میں نے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون؟ میں نے عرض کیا کہ ابوطالب کی بیٹی ام ھانی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوش آمدید ام ہانی۔ . . . [صحيح مسلم/كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا/باب اسْتِحْبَابِ صَلاَةِ الضُّحَى وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ...: 1669]

تخريج الحديث:
[193۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 4 باب الصلاة فى الثوب الواحد ملتحفا به 280، مسلم 336، ترمذي 2734]
فھم الحدیث: معلوم ہوا کہ کسی پردے کے مقام پر غسل کرنا چاہئیے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کہ عورت کا احترام کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پناہ کو قبول فرمایا ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 193   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1579  
´غلام اور عورت کو امان دینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان عورت کسی کو پناہ دے سکتی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1579]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بعض روایات میں ہے کہ مسلمانوں کا ادنی آدمی بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے،
اس حدیث اور ام ہانی کے سلسلہ میں آپﷺ کا فرمان:
قد أجرنا من أجرت يا أم هاني سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان عورت بھی کسی کو پناہ دے سکتی ہے،
اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کسی مسلمان کے لیے توڑ ناجائز نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1579   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6158  
6158. سیدہ ام ہانی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے تھے جبکہ آپ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ ؓ آپ کو پردہ کیے ہوئے ہے۔ میں نے سلام عرض کیا تو آپ نے دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ آپ نے فرمایا: ام ہانی کو خوش آمدید جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہوئے اور آٹھ رکعات ادا کیں۔ آپ اس وقت اپنا جسم ایک ہی کپڑے میں لپیٹے ہوئے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرا بھائی اپنے خیال کے مطابق ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتا ہے جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے، یعنی فلان بن ہبیرہ کو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم نے بھی امان دی۔ سیدہ ام ہانی نے کہا: اور یہ چاشت کا وقت تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6158]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب یہاں سے نکلا کہ ام ہانی نے زعم ابن أمي کہا تولفظ زعموا کہنا جائز ہوا۔
فلاں سے مراد حارث بن ہشام یا عبداللہ بن ابی ربیعہ یا زہیر بن ابی امیہ تھا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی اسٹیٹ میں اگر مسلمان عورت بھی کسی کافر کو ذمی بنا کر پناہ دے دے تو قانوناً اس کی پناہ کو لاگو کیا جائے گا کیونکہ اس بارے میں عورت بھی ایک مسلمان مرد جتنا ہی حق رکھتی ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو کوئی حق نہیں دیا گیا ان میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6158   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6158  
6158. سیدہ ام ہانی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے تھے جبکہ آپ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ ؓ آپ کو پردہ کیے ہوئے ہے۔ میں نے سلام عرض کیا تو آپ نے دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ آپ نے فرمایا: ام ہانی کو خوش آمدید جب آپ غسل سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہوئے اور آٹھ رکعات ادا کیں۔ آپ اس وقت اپنا جسم ایک ہی کپڑے میں لپیٹے ہوئے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرا بھائی اپنے خیال کے مطابق ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتا ہے جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے، یعنی فلان بن ہبیرہ کو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم نے بھی امان دی۔ سیدہ ام ہانی نے کہا: اور یہ چاشت کا وقت تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6158]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ''زَعَمَ ابن أُمي'' کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ لفظ ''زَعَمُوا'' استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اگر اس کا استعمال ناجائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اصلاح فرما دیتے۔
(2)
لفظ زَعَمَ قول کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا:
اے محمد! ہمارے پاس آپ کا قاصد آیا اور اس نے کہا کہ آپ خود کو اللہ کے رسول کہتے ہیں۔
آپ نے فرمایا:
اس نے سچ کہا ہے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 102(12)
الفاظ یہ ہیں:
(أتانا رسولك فزعم لنا أنك تزعم أن الله أرسلك؟ قال:
صدق)

بہرحال لفظ زعم کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6158