صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
3. بَابُ الإِقَامَةُ وَاحِدَةٌ، إِلاَّ قَوْلَهُ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ:
باب: اس بارے میں کہ سوائے «قد قامت الصلاة» کے اقامت کے کلمات ایک ایک دفعہ کہے جائیں۔
حدیث نمبر: 607
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" أُمِرَ بِلَالٌ أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ وَأَنْ يُوتِرَ الْإِقَامَةَ"، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: فَذَكَرْتُ لِأَيُّوبَ، فَقَالَ: إِلَّا الْإِقَامَةَ.
ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ سے بیان کیا، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو دفعہ کہیں اور تکبیر میں یہی کلمات ایک ایک دفعہ۔ اسماعیل نے بتایا کہ میں نے ایوب سختیانی سے اس حدیث کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا مگر لفظ «قد قامت الصلوة» دو ہی دفعہ کہا جائے گا۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 146  
´اذان کے کلمات دو، دو مرتبہ`
«. . . وعن انس رضي الله عنه قال: امر بلال: ان يشفع الاذان شفعا ويوتر الإقامة إلا الإقامة يعني: إلا قد قامت الصلاة . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے کلمات دو، دو مرتبہ اور تکبیر «قد قامت الصلاة» کے علاوہ باقی جملہ کلمات کو ایک، ایک مرتبہ کہنے کا حکم دیا گیا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 146]

لغوی تشریح:
«أُمِرَ» صیغہ مجہول ہے۔ اس میں حکم صادر فرمانے والے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سنن نسائی میں اس کی صراحت موجود ہے۔
«أَنْ يَشْفَعَ الْآذَانَ» یعنی ہر کلمہ دو دو مرتبہ ادا کرے۔
«وَيُوتِرَ الْإِقَامَةَ» اقامت میں ہر کلمہ ایک ایک مرتبہ کہے۔
«إِلَّا الْإِقَامَةَ» بجز اقامت، یعنی «قَدْ قَامَتِ الصَّلّاةُ» کے۔ اسے دو دو مرتبہ کہا جائے گا۔
«وَلَمْ يَذْكُرْ مُسْلِمٌ الْإِسْتِثْنَاءَ» اور مسلم نے «إِلَّا الْإِقَامَةَ» یعنی استثنا والی عبارت نقل نہیں کی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 146   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 603  
´باب: اس بیان میں کہ اذان کیونکر شروع ہوئی`
«. . . عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: ذَكَرُوا النَّارَ وَالنَّاقُوسَ، فَذَكَرُوا الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى،: ذَكَرُوا النَّارَ " فَأُمِرَ بِلَالٌ أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ وَأَنْ يُوتِرَ الْإِقَامَةَ " . . . .»
. . . ´ ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ (نماز کے وقت کے اعلان کے لیے) لوگوں نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا۔ پھر یہود و نصاریٰ کا ذکر آ گیا۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ کو یہ حکم ہوا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہیں اور اقامت میں ایک ایک مرتبہ۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ/بَابُ بَدْءُ الأَذَانِ:: 603]

تشریح:
امیرالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاذان قائم فرما کر باب بدء الاذان کو قرآن پاک کی دو آیات مقدسہ سے شروع فرمایا جس کا مقصد یہ ہے کہ اذان کی فضیلت قرآن شریف سے ثابت ہے اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اذان کی ابتدا مدینہ میں ہوئی کیونکہ یہ دونوں سورتیں جن کی آیات نقل کی گئی ہیں یعنی سورۃ مائدہ اور سورۃ جمعہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔

اذان کی تفصیلات کے متعلق حضرت مولانا عبیداللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«وهوفي اللغة الاعلام وفي الشرع الاعلام بوقت الصلوٰة بالفاظ مخصوصة»
یعنی لغت میں اذان کے معنی اطلاع کرنا اور شرع میں مخصوص لفظوں کے ساتھ نمازوں کے اوقات کی اطلاع کرنا۔

ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں تعمیر مسجد نبوی کے بعد سوچا گیا کہ مسلمانوں کو نماز کے لیے وقت مقررہ پر کس طرح اطلاع کی جائے۔ چنانچہ یہود و نصاریٰ و مجوس کے مروجہ طریقے سامنے آئے۔ جو وہ اپنی عبادت گاہوں میں لوگوں کو بلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسلام میں ان سب چیزوں کو ناپسند کیا گیا کہ عبادت الٰہی کے بلانے کے لیے گھنٹے یا ناقوس کا استعمال کیا جائے۔ یا اس کی اطلاع کے لیے آگ روشن کر دی جائے۔ یہ مسئلہ درپیش ہی تھا کہ ایک صحابی عبداللہ بن زید انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ان کو نماز کے وقتوں کی اطلاع کے لیے مروجہ اذان کے الفاظ سکھا رہا ہے۔ وہ صبح اس خواب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے آئے تو دیکھا گیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ اور آپ بھی حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ خواب میں ان کو بھی ہوبہو ان ہی کلمات کی تلقین کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان بیانات کو سن کر خوش ہوئے۔ اور فرمایاکہ یہ خواب بالکل سچے ہیں۔ اب یہی طریقہ رائج کر دیا گیا۔ یہ خواب کا واقعہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد پہلے سال ہی کا ہے۔ جیسا کہ حافظ نے تہذیب التہذیب میں بیان کیا ہے کہ آپ نے جناب عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ تم یہ الفاظ بلال کو سکھا دو، ان کی آواز بہت بلند ہے۔

اس حدیث اور اس کے علاوہ اور بھی متعدد احادیث میں تکبیر (اقامت) کے الفاظ ایک ایک مرتبہ ادا کرنے کا ذکر ہے۔
علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«قال الخطابي مذهب جمهور العلماء والذي جري به العمل فى الحرمين والحجاز والشام واليمن ومصر و المغرب الي اقصي بلاد الاسلام ان الاقامة فرادي» [نيل]
یعنی امام خطابی نے کہا کہ جمہور علماءکا یہی فتویٰ ہے تکبیر اقامت اکہری کہی جائے۔ حرمین اور حجاز اور شام اور یمن اور مصر اور دور دراز تک تمام ممالک اسلامیہ غربیہ میں یہی معمول ہے کہ تکبیر اقامت اکہری کہی جاتی ہے۔

اگرچہ تکبیر اقامت میں جملہ الفاظ کا دو دو دفعہ مثل اذان کے کہنا بھی جائز ہے۔ مگر ترجیح اسی کو ہے کہ تکبیر اقامت اکہری کہی جائے۔ مگر برادران احناف اس کا نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ اکہری تکبیر سن کر بیشتر چونک جاتے ہیں اور دوبارہ تکبیر اپنے طریق پر کہلواتے ہیں۔ یہ رویہ کس قدر غلط ہے کہ ایک امر جائز جس پر دنیائے اسلام کا عمل ہے اس سے اس قدر نفرت کی جائے۔ بعض علمائے احناف نے اکہری تکبیر والی حدیث کو منسوخ قرار دیا ہے۔ اور کئی طرح کی تاویلات رکیکہ سے کام لیا ہے۔

حضرت الشیخ الکبیر والمحدث الجلیل علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«والحق ان احاديث افراد الاقامة صحيحة ثابتة محكمة ليست بمنسوخة ولابمؤلة۔» [تحفة الاحوذي]
یعنی حق بات یہی ہے کہ اکہری تکبیر کی احادیث صحیح اور ثابت ہیں۔ اس قدر مضبوط کہ نہ وہ منسوخ ہیں اورنہ تاویل کے قابل ہیں۔ اسی طرح تکبیر دو دو دفعہ کہنے کی احادیث بھی محکم ہیں۔ پس میرے نزدیک تکبیر اکہری کہنا بھی جائز ہے اور دوہری کہنا بھی جائز ہے۔ تکبیر اکہری کے وقت الفاظ «قد قامت الصلوٰة قد قامت الصلوٰة» دو دو دفعہ کہنے ہوں گے جیسا کہ روایات میں مذکور ہے۔

حضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«وهو مع قلة الفاظه مشتمل على مسائل العقائد كما بين ذلك الحافظ فى الفتح نقلا عن القرطبي۔»
یعنی اذان میں اگرچہ الفاظ تھوڑے ہیں مگر اس میں عقائد کے بہت سے مسائل آ گئے ہیں جیسا کہ فتح الباری میں حافظ نے قرطبی سے نقل کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اذان کے کلمات باوجود قلت الفاظ دین کے بنیادی عقائد اور شعائر پر مشتمل ہیں۔ سب سے پہلا لفظ «الله اكبر» یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے اور سب سے بڑا ہے، یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اورعظمت پر دلالت کرتاہے۔ «اشهد ان لا اله الا الله» بجائے خود ایک عقیدہ ہے اور کلمہ شہادت کا جزء۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا اور یکتا ہے۔ اور وہی معبود ہے۔ کلمہ شہادت کا دوسرا جز «اشهدان محمدارسول الله» ہے۔ جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کی گواہی دی جاتی ہے۔ «حي على الصلوٰة» پکار ہے اس کی کہ جس نے اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دے دی وہ نماز کے لیے آئے کہ نماز قائم کی جا رہی ہے۔ اس نماز کے پہنچانے والے اور اپنے قول و فعل سے اس کے طریقوں کو بتلانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت کے بعد فوراً ہی اس کی دعوت دی گئی۔ اور اگر نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ لی اور بتمام واکمال آپ نے اسے ادا کیا تو یہ اس بات کی ضامن ہے کہ آپ نے فلاح حاصل کرلی۔ «حي على الفلاح» نماز کے لیے آئیے! آپ کو یہاں فلاح یعنی بقاء دائم اور حیات آخرت کی ضمانت دی جائے گی، آئیے، چلے آئیے۔ کہ اللہ کے سوا عبادت کے لائق اور کوئی نہیں۔ اس کی عظمت و کبریائی کے سایہ میں آپ کو دنیا اور آخرت کے شرور و آفات سے پناہ مل جائے گی۔ اوّل بھی اللہ ہے اور آخر بھی اللہ۔ خالق کل، مالک یکتا اور معبود، پس اس کی دی ہوئی ضمانت سے بڑھ کر اور کون سی ضمانت ہو سکتی ہے۔ «الله اكبر، الله اكبر، لااله الا الله» ۔ [تفہیم البخاری]
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 603   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 607  
607. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان (کے کلمات) جفت اور اقامت (کے کلمات) طاق (ایک ایک مرتبہ) کہیں۔ (راوی حدیث) اسماعیل کہتے ہیں: میں نے (اپنے شیخ) ایوب سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: ہاں (اقامت کے کلمات طاق ہونے چاہئیں) سوائے قد قامت الصلاة کے (کہ انہیں دو مرتبہ کہا جائے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:607]
حدیث حاشیہ:
امام المحدثین ؒ نے اکہری اقامت کے مسنون ہونے کے بارے میں یہ باب منعقد فرمایاہے اورحدیث بلال ؓ سے اسے مدلل کیاہے۔
یہاں صیغہ مجہول امربلال وارد ہواہے۔
مگر بعض طرق صحیحہ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ أن النبي صلی اللہ علیه وسلم أمربلالا أن یشفع الأذان ویوتر الإقامة۔
(کذا رواہ النسائي)
یعنی حضرت بلال ؒ کو اکہری تکبیر کا حکم فرمانے والے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔
محدث مبارک پوری صاحب ؒ تحفۃ الاحوذی میں فرماتے ہیں:
وبهذا ظهر بطلان قول العیني في شرح الکنزلاحجة لهم فیه لأنه لم یذکر الأمر فیحتمل أن یکون هوالنبي صلی اللہ علیه وسلم أوغیرہ۔
(تحفة الأحوذي)
یعنی سنن نسائی میں آمدہ تفصیل سے علامہ عینی کے اس قول کا بطلان ظاہر ہوگیا جوانھوں نے شرح کنزمیں لکھاہے کہ اس حدیث میں احتمال ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں یا آپ کے علاوہ کوئی اورہو۔
لہٰذا اس سے اکہری تکبیر کا ثبوت صحیح نہیں ہے۔
یہ علامہ عینی صاحب مرحوم کی تاویل کس قدر باطل ہے، مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔
اکہری تکبیر کے بارے میں احمد، ابوداؤد، نسائی میں اس قدر روایات ہیں کہ سب کو جمع کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
مولانا مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں:
قَالَ الْحَازِمِيُّ فِي كِتَابِ الِاعْتِبَارِ رَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْإِقَامَةَ فُرَادَى وَإِلَى هَذَا الْمَذْهَبِ ذَهَبَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ وَالزُّهْرِيُّ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَأَهْلُ الْحِجَازِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُ وَإِلَيْهِ ذَهَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَمَكْحُولٌ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَأَهْلُ الشَّامِ وَإِلَيْهِ ذَهَبَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَمَنْ تبعهم من العراقيين وإليه ذهب يحيى بن يَحْيَى وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ وَمَنْ تَبِعَهُمَا مِنَ الْخُرَاسَانِيِّينَ وَذَهَبُوا فِي ذَلِكَ إِلَى حَدِيثِ أَنَسٍ انْتَهَى كَلَامُ الْحَازِمِيِّ۔
(تحفة الأحوذي)
یعنی امام حازمی نے کتاب الاعتبار میں اکثر اہل علم کا یہی فتویٰ نقل کیاہے کہ تکبیر اکہری کہنا مسنون ہے۔
ان علماءمیں حجازی، شامی، عراقی اور خراسانی یہ تمام علماءاس کے قائل ہیں۔
جن کے اسماءگرامی علامہ حازمی صاحب نے پیش فرمائے ہیں۔
آخر میں علامہ مبارک پوری مرحوم نے کس قدر منصفانہ فیصلہ دیا ہے۔
آپ فرماتے ہیں:
وَالْحَقُّ أَنَّ أَحَادِيثَ إِفْرَادِ الْإِقَامَةِ صَحِيحَةٌ ثَابِتَةٌ مُحْكَمَةٌ لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ وَلَا بِمُؤَوَّلَةٍ نَعَمْ قَدْ ثَبَتَ أَحَادِيثُ تَثْنِيَةِ الْإِقَامَةِ أَيْضًا وَهِيَ أَيْضًا مُحْكَمَةٌ لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ وَلَا بِمُؤَوَّلَةٍ وَعِنْدِي الْإِفْرَادُ وَالتَّثْنِيَةُ كِلَاهُمَا جَائِزَانِ وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ۔
(تحفة الأحوذي، ج1، ص: 172)
یعنی حق بات یہی ہے کہ اکہری تکبیر والی احادیث صحیح، ثابت محکم ہیں۔
نہ وہ منسوخ ہیں نہ قابل تاویل ہیں، اسی طرح دوہری تکبیر کی احادیث بھی محکم ہیں اوروہ بھی منسوخ نہیں ہیں۔
نہ قابل تاویل ہیں۔
پس میرے نزدیک ہر دوطرح سے تکبیر کہنا جائز ہے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے:
ہمارے عوام نہیں بلکہ خواص حنفی حضرات اگرکبھی اتفاقاً کہیں اکہری تکبیر سن پاتے ہیں تو فوراً ہی مشتعل ہوجاتے ہیں اوربعض متعصّب اس اکہری تکبیر کوباطل قرار دے کر دوبارہ دوہری تکبیرکہلواتے ہیں۔
اہل علم حضرات سے ایسی حرکت انتہائی مذموم ہے جو اپنی علمی ذمہ داریوں کو ذرا بھی محسوس نہیں کرتے۔
بنظر انصاف دیکھا جائے تو یہی حضرات افتراق امت کے مجرم ہیں۔
جنھوں نے جزئی وفروعی اختلافات کو ہوا دے کر اسلام میں فرقہ بندی کی بنیاد رکھی ہے۔
دوسرے لفظوں میں اسی کا نام تقلید جامد ہے۔
جب تک امت ان اختلافات کو فراموش کرکے اسلامی تعلیمات کے ہر پہلو کے لیے اپنے دلوںمیں گنجائش نہ پیدا کرے گی امت میں اتفاق مشکل ہے۔
اگرکچھ مخلصین ذمہ دار علماء اس کے لیے تہیہ کرلیں تو کچھ مشکل بھی نہیں ہے۔
جب کہ آج پوری دنیائے اسلام موت و حیات کی کشمکش میں مبتلاہے ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے عوام وخواص کو بتلایا جائے کہ اتفاق باہمی کتنی عمدہ چیز ہے۔
الحمد للہ کہ آج تک کسی اہل حدیث مسجد سے متعلق ایسا کوئی کیس نہیں مل سکے گا کہ وہاں کسی حنفی بھائی نے دوہری تکبیرکہی ہو اوراس پر اہل حدیث کی طرف سے کبھی بلوہ ہوگیا ہو۔
برخلاف اس کے کتنی ہی مثالیں موجود ہیں۔
اللہ پاک مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ کلمہ اورقرآن اورکعبہ وتوحید ورسالت پر متفق ہوکر اسلام کوسربلند کرنے کی کوشش کریں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 607   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 628  
´اذان دہری کہنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دہری اور اقامت اکہری کہنے کا حکم دیا۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 628]
628 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت کے اکثر کلمات ایک ایک ہیں مگر احناف اذان و اقامت کو برابر رکھتے ہیں، یعنی دو دو کلمات اور اسے ضروری سمجھتے ہیں، یعنی اکہری اقامت کو کافی نہیں سمجھتے، حالانکہ یہ روایات انتہائی صحیح ہیں مگر وہ ان کی دور ازکار تاویلات کرتے ہیں کہ یہاں سانس کا ذکر ہے، یعنی اذان کے کلمات کو دو سانسوں میں ادا کیا جائے اور اقامت کے کلمات کو ایک سانس میں۔ لیکن یہ تاویل باطل ہو جاتی ہے جب قد قامت الصلاۃ کو مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔ اگر سانس کی بات ہوتی تو اس استثنا کی ضرورت نہ پڑتی کیونکہ یہ ایک ہی سانس میں ادا کیے جاتے ہیں۔
➋ اذان کے اکثر کلمات دو دو ہیں، سب نہیں، مثلا: آخر میں لا الہ الا اللہ ایک دفعہ ہے اور شروع میں اللہ اکبر چار دفعہ ہے مگر وہ دو دو اکٹھے کہے جاتے ہیں۔ اسی طرح اقامت کے اکثر کلمات اکہرے ہیں جب کہ شروع میں اللہ اکبر دو دفعہ ہے مگر انہیں اکٹھا کہا جاتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے اس کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 628   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:607  
607. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان (کے کلمات) جفت اور اقامت (کے کلمات) طاق (ایک ایک مرتبہ) کہیں۔ (راوی حدیث) اسماعیل کہتے ہیں: میں نے (اپنے شیخ) ایوب سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: ہاں (اقامت کے کلمات طاق ہونے چاہئیں) سوائے قد قامت الصلاة کے (کہ انہیں دو مرتبہ کہا جائے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:607]
حدیث حاشیہ:
(1)
اقامت کے طاق کلمات کی وضاحت بایں طور ہے:
(الله أكبر، الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمداً رسول الله، حي علي الصلاة، حي علي الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله)
(سنن أبي داود، الأذان، حدیث: 498)
کلمات اذان کو دو مرتبہ اور اقامت کو ایک ایکمرتبہ کہنے میں حکمت یہ ہے کہ اذان سے غیر موجود حضرات کو اطلاع دینا مقصود ہے، اس لیے باربار کلمات کو دہرایا جاتا ہے تاکہ دور رہنے والے لوگوں کو خبر ہوجائے جبکہ اقامت سے صرف موجود لوگوں کو مطلع کرنا مقصود ہوتا ہے،اس لیے اسے ایک ایک مرتبہ کہا جاتا ہے اور اس میں قد قامت الصلاة کو دو مرتبہ کہنے میں یہ حکمت ہے کہ اقامت کہنے سے مقصود بالذات یہی ہے، یعنی حاضرین کو بتایا جائے کہ اب نماز کھڑی ہوچکی ہے۔
اذان کو بآواز بلند اور اقامت کو آہستہ آہستہ کہنے میں بھی یہی حکمت کار فرما ہے۔
والله أعلم. (فتح الباري: 112/2) (2)
ایک روایت میں ہے کہ اذان اور اقامت میں کلمات کو دودو مرتبہ کہا جائے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 194)
لیکن یہ روایت ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔
(ضعیف الترمذي، للألباني، حدیث: 29)
البتہ اقامت کے کلمات دودو مرتبہ کہنا بھی جائز ہے، لیکن ایک ایک مرتبہ کہنے والی احادیث زیادہ صحیح ہیں۔
ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ اگر اذان دوہری کہی جائے جس کے انیس کلمات ہیں تو اس وقت تکبیر بھی دوہری ہونی چاہیے جس کے سترہ کلمات ہیں (سنن أبي داود، الأذان، حدیث: 502)
اور اگر عبداللہ بن زید کے خواب والی اکہری اذان دی جائے جس کے پندرہ کلمات ہیں تو اس وقت اقامت بھی اکہری ہونی چاہیے جس کے گیارہ کلمات ہیں۔
(سنن أبي داود، الأذان، حدیث: 499) (3)
بعض حضرات نے اس روایت کے پیش نظر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حدیث: 605 میں إلا الإقامة کے الفاظ حدیث کا حصہ نہیں بلکہ ایوب راوی نے اپنی طرف سے بطور وضاحت ذکر کیے ہیں۔
اس موقف کی تائید میں ان کا کہنا ہے کہ ابو قلابہ سے روایت کرنے والے ایوب اور خالد الخداء ہیں اور مؤخر الذکر راوی جب حدیث بیان کرتےہیں تو وہ ان الفاظ کو بیان نہیں کرتے،لیکن یہ موقف مبنی برحقیقت نہیں کیونکہ ایوب راوی سے متصل سند کے ساتھ معمر نے اس حدیث کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:
حضرت بلال ؓ اذان کے کلمات دودو مرتبہ اور اقامت کے ایک ایک مرتبہ کہتے، البتہ قد قامت الصلاة کے الفاظ دودو مرتبہ کہتے تھے، نیز علامہ اسماعیلی ؒ نے اسی سند کے ساتھ مذکورہ حدیث بایں الفاط بیان کی ہے:
حضرت بلال ؓ قد قامت الصلاة کے الفاظ دو مرتبہ کہتے تھے۔
اصل بات یہ ہے کہ حدیث میں جو الفاظ بیان ہوں وہ حدیث کا حصہ ہوتے ہیں۔
ہاں، اگر کوئی قرینہ یا دلیل آجائے تو انھیں الحاق یا مدرج قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ اس مقام پر کوئی قرینہ نہیں ہے کہ إلا الإقامة کے الفاظ کو مدرج قرار دیا جاسکے۔
تائید میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس لیے صحیح نہیں کہ ابو قلابہ سے اگرچہ خالد الخداء نے ان الفاظ کو بیان نہیں کیا،تاہم جب ان سے ایوب بیان کرتا ہے تو مذکورہ الفاظ کو ذکر کرتا ہے اور محدثین کے اصول کے مطابق ثقہ راوی کا اضافہ، جبکہ وہ اوثق یا ثقات کی مخالفت نہ کررہا ہو، قبول ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 110/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 607