مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
30. مسنَد عَبدِ اللهِ بنِ عَمرو بنِ العَاصِ رَضِیَ الله تَعالَى عَنهمَا
0
حدیث نمبر: 6622
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، وَيُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، قَالَ: لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ العاص ، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صِفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّوْرَاةِ، فَقَالَ: أَجَلْ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لَمَوْصُوفٌ فِي التَّوْرَاةِ بِصِفَتِهِ فِي الْقُرْآنِ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا سورة الأحزاب آية 45 وَحِرْزًا لِلْأُمِّيِّينَ، وَأَنْتَ عَبْدِي وَرَسُولِي، سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكِّلَ، لَسْتَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ، وَلَا سَخَّابٍ بِالْأَسْوَاقِ قَالَ يُونُسُ: وَلَا صَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَةَ بِالسَّيِّئَةِ، وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ، وَلَنْ يَقْبِضَهُ حَتَّى يُقِيمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ، بِأَنْ يَقُولُوا:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَيَفْتَحَ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوبًا غُلْفًا"، قَالَ عَطَاءٌ: لَقِيتُ كَعْبًا فَسَأَلْتُهُ، فَمَا اخْتَلَفَا فِي حَرْفٍ، إِلَّا أَنَّ كَعْبًا يَقُولُ: بِلُغَتِهِ أَعْيُنًا عُمُومَى، وَآذَانًا صُمُومَى، وَقُلُوبًا غُلُوفَى، قَالَ يُونُسُ غُلْفَى.
عطاء بن یسار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوئی میں نے ان سے عرض کیا کہ تورات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات بیان گئی ہیں ان کے متعلق مجھے بتائیے انہوں نے فرمایا: اچھا واللہ تورات میں ان کی وہی صفات بیان کی گئی ہیں جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو گواہ بنا کر خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے " اور امیین کے لئے حفاظت بنا کر مبعوث کیا ہے آپ میرے بندے اور رسول ہیں میں نے آپ کا نام متوکل رکھ دیا ہے آپ تندخو، سخت دل، بازاروں میں شور مچانے والے اور برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے نہیں ہیں بلکہ در گزر اور معاف کر دینے والے ہیں اللہ انہیں اس وقت تک اپنے پاس نہیں بلائے گا جب تک ان کے ذریعے ٹیڑھی ملت کو سیدھا نہ کر دے گا کہ وہ لاالہ الا اللہ کا اقرار کر نے لگیں، پھر اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اندھی آنکھوں کو، بہرے کانوں کو اور پردوں میں لپٹے دلوں کو کھول دے گا۔ عطاء کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں کعب احبار سے ملا اور ان سے بھی یہی سوال پوچھا تو ان دونوں کے جواب میں ایک حرف کا فرق بھی نہ تھا۔