صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ -- کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
10. بَابُ آيَةِ الْحِجَابِ:
باب: پردہ کی آیت کے بارے میں۔
حدیث نمبر: 6239
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ أَبِي: حَدَّثَنَا أَبُو مِجْلَزٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ، دَخَلَ الْقَوْمُ فَطَعِمُوا، ثُمَّ جَلَسُوا يَتَحَدَّثُونَ، فَأَخَذَ كَأَنَّهُ يَتَهَيَّأُ لِلْقِيَامِ، فَلَمْ يَقُومُوا، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ قَامَ، فَلَمَّا قَامَ قَامَ مَنْ قَامَ مِنَ الْقَوْمِ وَقَعَدَ بَقِيَّةُ الْقَوْمِ، وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ لِيَدْخُلَ، فَإِذَا الْقَوْمُ جُلُوسٌ، ثُمَّ إِنَّهُمْ قَامُوا فَانْطَلَقُوا، فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ حَتَّى دَخَلَ، فَذَهَبْتُ أَدْخُلُ فَأَلْقَى الْحِجَابَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ سورة الأحزاب آية 53 الْآيَةَ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: فِيهِ مِنَ الْفِقْهِ أَنَّهُ لَمْ يَسْتَأْذِنْهُمْ حِينَ قَامَ، وَخَرَجَ وَفِيهِ أَنَّهُ تَهَيَّأَ لِلْقِيَامِ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَقُومُوا.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ ان سے ابومجلز نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو لوگ اندر آئے اور کھانا کھایا پھر بیٹھ کے باتیں کرتے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح اظہار کیا گویا آپ کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ کھڑے نہیں ہوئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو کھڑے ہو گئے۔ آپ کے کھڑے ہونے پر قوم کے جن لوگوں کو کھڑا ہونا تھا وہ بھی کھڑے ہو گئے لیکن بعض لوگ اب بھی بیٹھے رہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہونے کے لیے تشریف لائے تو کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے (آپ واپس ہو گئے) اور پھر جب وہ لوگ بھی کھڑے ہوئے اور چلے گئے تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر داخل ہو گئے۔ میں نے بھی اندر جانا چاہا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال لیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي‏» اے ایمان والو! نبی کے گھر میں نہ داخل ہو۔ آخر تک۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1908  
´ولیمہ کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کسی کا اتنا بڑا ولیمہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنا بڑا آپ نے اپنی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ولیمہ میں ایک بکری ذبح کی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1908]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔
ان کی والدہ حضرت امیمہ بنت عبدالمطلب تھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ سے کیا تھا لیکن نباہ نہ ہو سکا اور طلاق ہو گئی۔
عدت گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے خود ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے وحی کے ذریعے سے کردیا۔

(2)
صحابی نے ولیمہ کے موقع پر ایک بکری ذبح کرنے کو پرتکلف اور شان دار ولیمہ قرار دیا ہے حالانکہ عرب گوشت کھانے کے عادی تھے۔
وہ بیک وقت کئی کئی اونٹ ذبح کر کے کھاتے اور کھلاتے تھے۔
اور اس ماحول میں ایک بکری بہت معمولی چیز تھی لیکن رسول اللہ ﷺ نے نکاح کو آسان بنانے کے لیے تکلفات سے پرہیز فرمایا اور عام طور پر ولیمہ گوشت کے بغیر ہی کردیا گیا۔

(3)
ولیمے کے لیے قرض لینا اور خواہ مخواہ زیر بار ہونا درست نہیں۔
آسانی سے جس قدر اہتمام ہو سکے کرلیا جائے۔

(4)
نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کے ہاں جمع ہو کر دعوتیں اڑانا کسی حدیث میں مذکور نہیں۔

یہ محض ایک رسم ہے جس کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1908   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3217  
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ اپنی ایک بیوی کے کمرے کے دروازہ پر تشریف لائے جن کے ساتھ آپ کو رات گزارنی تھی، وہاں کچھ لوگوں کو موجود پایا تو آپ وہاں سے چلے گئے، اور اپنا کچھ کام کاج کیا اور کچھ دیر رکے رہے، پھر آپ دوبارہ لوٹ کر آئے تو لوگ وہاں سے جا چکے تھے، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر آپ اندر چلے گئے اور ہمارے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا (لٹکا دیا) میں نے اس بات کا ذکر ابوطلحہ سے کیا: تو انہوں نے کہا اگر بات ایسی ہی ہے جیسا تم کہتے ہو تو اس بارے میں کوئی نہ کوئی حکم ضرور نازل ہو گا، پھر آیت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3217]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آیت حجاب سے مراد یہ آیت ہے ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ﴾ إلى ﴿إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًا﴾  (الأحزاب: 53) (یعنی اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو،
الاّ یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے،
لیکن تم پہلے ہی اس کے پکنے کا انتظار نہ کرو،
بلکہ جب بلایا جائے تو داخل ہو جاؤ اور جب کھا چکو تو فوراً منتشر ہو جاؤ،
...اورجب تم امہات المومنین سے کوئی سامان مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو ...)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3217   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6239  
6239. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ نے سیدہ زینب‬ ؓ س‬ے نکاح فرمایا تو لوگ دعوت ولیمہ کے لیے آئے کھانا کھایا پھر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ آپ ﷺ نے اس طرح اظہار کیا گویا آپ اٹھنے لگے ہیں لیکن لوگ نہ اٹھے۔ جب آپ نے یہ صورت حال دیکھی تو آپ کھڑے ہوگئے۔ جب آپ اٹھے تو کچھ لوگ کھڑے ہو کر چلے گئے لیکن بعض لوگ پھر بھی بیٹھے رہے۔ بہرحال نبی ﷺ گھر میں داخل ہونے کے لیے تشریف لائے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ابھی تک بیٹھے ہوئے ہیں پھر وہ بھی اٹھ کر چلے گئے۔ میں نے نبی ﷺ کو اس امر کی اطلاع دی تو آپ اندر داخل ہو گئے۔ میں نے بھی اندر جانا چاہا لیکن آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال لیا اور اللہ تعالٰی نے یہ حکم نازل فرمایا: اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو کرو۔۔۔۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6239]
حدیث حاشیہ:
بعض نسخوں میں یہاں یہ عبارت اور زائد ہے۔
قال أبو عبد اللہ فیه من الفقه أنه لم یستأذنهم حین قام و خرج و فیه أنه تھیا للقیام وھو یرید أن یقوموا۔
حضرت امام بخاری نے کہا اس حدیث سے یہ مسئلہ نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور چلے ان سے اجازت نہیں لی اور یہ بھی نکلا کہ آپ نے ان کے سامنے اٹھنے کی تیاری کی۔
آپ کا مطلب یہ تھا کہ وہ بھی اٹھ جائیں تو معلوم ہوا کہ جب لوگ بیکار بیٹھے رہیں اور صاحب خانہ تنگ ہو جائے تو ان کی بغیر اجازت اٹھ کر چلے جانا یا ان کو اٹھانے کے لئے اٹھنے کی تیاری کرنا درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6239   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6239  
6239. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ نے سیدہ زینب‬ ؓ س‬ے نکاح فرمایا تو لوگ دعوت ولیمہ کے لیے آئے کھانا کھایا پھر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ آپ ﷺ نے اس طرح اظہار کیا گویا آپ اٹھنے لگے ہیں لیکن لوگ نہ اٹھے۔ جب آپ نے یہ صورت حال دیکھی تو آپ کھڑے ہوگئے۔ جب آپ اٹھے تو کچھ لوگ کھڑے ہو کر چلے گئے لیکن بعض لوگ پھر بھی بیٹھے رہے۔ بہرحال نبی ﷺ گھر میں داخل ہونے کے لیے تشریف لائے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ابھی تک بیٹھے ہوئے ہیں پھر وہ بھی اٹھ کر چلے گئے۔ میں نے نبی ﷺ کو اس امر کی اطلاع دی تو آپ اندر داخل ہو گئے۔ میں نے بھی اندر جانا چاہا لیکن آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال لیا اور اللہ تعالٰی نے یہ حکم نازل فرمایا: اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہو کرو۔۔۔۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے کہا: اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6239]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں آیت حجاب کا سبب نزول بیان ہوا ہے۔
اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو مخاطب کر کے کہا گیا تھا کہ تمہارا اصل مقام گھر کی چار دیواری ہے۔
تمہیں بلا ضرورت گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔
یہ حکم ان کے باہر نکلنے پر پابندی تک موقوف تھا لیکن لوگ سب گھروں میں بلا روک ٹوک آتے جاتے تھے۔
اس آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں بلا اجازت داخل ہونے پر پابندی لگا دی گئی، پھر سورۂ نور کی آیت: 27 کی رو سے یہ حکم تمام مسلم گھرانوں پر نافذ کر دیا گیا کہ کوئی شخص بھی کسی دوسرے کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کرے۔
(2)
بہرحال ان آیات کے نازل ہونے کے بعد تمام ازواج مطہرات کے گھروں کے باہر پردہ لٹکا دیا گیا، پھر دوسرے مسلمانوں نے بھی اپنے گھروں کے سامنے پردے لٹکا لیے حتی کہ یہ دستور اسلامی طرز معاشرت کا ایک حصہ بن گیا۔
(3)
مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول اور فحاشی کی روک تھام کے لیے یہ ایک مؤثر اقدام ہے کہ کوئی غیر مرد کسی اجنبی عورت کو نہ دیکھے اور نہ کسی کے دل میں کوئی برا خیال یا وسوسہ ہی پیدا ہو، گویا معاشرے سے بے حیائی اور فحاشی کے خاتمے کے لیے پردہ نہایت ضروری چیز ہے۔
اب جو لوگ کہتے ہیں کہ اصل پردہ تو دل کا پردہ ہے کیونکہ شرم و حیا اور برے خیالات کا تعلق دل سے ہے، ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کا مذاق اڑاتے ہیں۔
(4)
حدیث کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ کا ایک قول نقل ہوا ہے جو صحیح بخاری کے تمام نسخوں میں نہیں ہے، اس کی یہاں کوئی خاص ضرورت نہیں کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں خود ایک باب ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب من قام من مجلسه أو بيته ولم يستأذن أصحابه، أو تهيا للقيام ليقوم الناس)
جو شخص اپنے ساتھیوں کی اجازت کے بغیر مجلس یا گھر سے اٹھ کر چلا جائے یا کھڑا ہونے کی تیاری کر لے تاکہ دوسرے لوگ بھی اٹھ کر چلے جائیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس قول کے متعلق اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
(فتح الباري: 29/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6239