صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
10. بَابُ الْكَلاَمِ فِي الأَذَانِ:
باب: اذان کے دوران بات کرنے کے بیان میں۔
وَتَكَلَّمَ سُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ فِي أَذَانِهِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: لَا بَأْسَ أَنْ يَضْحَكَ وَهُوَ يُؤَذِّنُ أَوْ يُقِيمُ.
‏‏‏‏ اور سلیمان بن صرد صحابی نے اذان کے دوران بات کی اور حسن بصری نے کہا کہ اگر ایک شخص اذان یا تکبیر کہتے ہوئے ہنس دے تو کوئی حرج نہیں۔
حدیث نمبر: 616
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، وَعَبْدِ الْحَمِيدِ صَاحِبِ الزِّيَادِيِّ، وَعَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ:" خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ فِي يَوْمٍ رَدْغٍ، فَلَمَّا بَلَغَ الْمُؤَذِّنُ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُنَادِيَ الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ، فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: فَعَلَ هَذَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ وَإِنَّهَا عَزْمَةٌ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی اور عبدالحمید بن دینار صاحب الزیادی اور عاصم احول سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن حارث بصریٰ سے، انہوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دن ہم کو جمعہ کا خطبہ دیا۔ بارش کی وجہ سے اس دن اچھی خاصی کیچڑ ہو رہی تھی۔ مؤذن جب «حى على الصلاة‏» پر پہنچا تو آپ نے اس سے «الصلاة في الرحال‏» کہنے کے لیے فرمایا کہ لوگ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لیں۔ اس پر لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اسی طرح مجھ سے جو افضل تھے، انہوں نے بھی کیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ جمعہ واجب ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 616  
616. حضرت عبداللہ بن حارث سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت ابن عباس ؓ نے بارش کے دن خطبہ دینے کا ارادہ کیا۔ جب مؤذن حي على الصلاة تک پہنچا تو انہوں نے اسے حکم دیا کہ اعلان کر ہر شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ لے۔ (یہ سن کر) لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: یہ کام اس شخص نے کیا ہے جو ہم سے بہتر تھا۔ اور یہ (نماز جمعہ) عزیمت (ضروری) ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:616]
حدیث حاشیہ:
موسلادھاربارش ہورہی تھی کہ جمعہ کا وقت ہوگیا اورمؤذن نے اذان شروع کی جب وہ حی علی الصلوٰة پر پہنچا تو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اسے فوراً لقمہ دیا کہ یوں کہو الصلوٰة في الرحال یعنی لوگو اپنے اپنے ٹھکانوں پر نماز ادا کر لو۔
چونکہ لوگوں کے لیے یہ نئی بات تھی اس لیے ان کو تعجب ہوا۔
جس پر حضرت ابن عباس ؓ نے ان کو سمجھایا کہ میں نے ایسے موقع پر رسول کریم ﷺ کا یہی معمول دیکھا ہے۔
معلوم ہوا کہ ایسے خاص موقع پر دوران اذان کلام کرنا درست ہے۔
اوراتفاقاً اگرکسی کو اذان کے وقت ہنسی آگئی تو اس سے بھی اذان میں خلل نہ ہوگا۔
یہ اتفاقی امور ہیں جن سے اسلام میں آسانی دکھانا مقصود ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 616   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:616  
616. حضرت عبداللہ بن حارث سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت ابن عباس ؓ نے بارش کے دن خطبہ دینے کا ارادہ کیا۔ جب مؤذن حي على الصلاة تک پہنچا تو انہوں نے اسے حکم دیا کہ اعلان کر ہر شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ لے۔ (یہ سن کر) لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: یہ کام اس شخص نے کیا ہے جو ہم سے بہتر تھا۔ اور یہ (نماز جمعہ) عزیمت (ضروری) ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:616]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں دورانِ اذان میں، مؤذن کے کلام کرنے کی صراحت نہیں ہے تو اس کی عنوان سے مطابقت بایں طور ہے کہ اذان کے درمیان کلام کرنے سے کلمات اذان کا نسق اور اسلوب متاثر ہوتا ہے۔
حي على الصلاة کے بعد یا اس کی جگہ ألا صلوا في الرحال کہنے سے بھی اذان معہود کا اسلوب متاثر ہوگا، لیکن اس کے باوجود اذان صحیح ہے۔
امام بخاری ؒ کا مقصود بھی یہی ہے کہ دوران اذان میں اگر ایسا کلام کیا جائے جس سے اذان کا نظم متاثر ہو، اس سے اذان کے صحیح ہونے میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔
(2)
روایت کے آخر میں ہم نے ترجمہ کرتے وقت قوسین کے اندر نماز جمعہ کا اضافہ کیا ہے، کیونکہ ابن عباس ؓ سے مروی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 901)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ألا صلوا في الرحال کے الفاظ کہے جائیں تو حي على الصلاة کے پیش نظر بارش اور کیچڑ کے باوجود جمعہ کی نماز کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے، اگرچہ مشقت ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے ألا صلوا في الرحال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بارش ایک ایسا عذر ہے جس کے پیش نظر ایک عزیمت رخصت میں بدل جاتی ہے۔
(فتح الباري: 2/494) (3)
بارش یا کیچڑ کی وجہ سے ألا صلوا في الرحال کے الفاظ حي على الصلاة کی جگہ یا اس کے بعد یا اذان سے فراغت کے بعد کہے جائیں؟اس کی تفصیل اور راجح موقف حدیث: 632 کے تحت بیان ہوگا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 616