مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
32. مسنَد اَبِی هرَیرَةَ رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 7361
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ سُفْيَانُ الَّذِي سَمِعْنَاهُ مِنْهُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، لَا أَدْرِي عَمَّنْ سُئِلَ سُفْيَانُ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ أُثَال؟! فَقَالَ: كَانَ الْمُسْلِمُونَ أَسَرُوهُ أَخَذُوهُ، فَكَانَ إِذَا مَرَّ بِهِ، قَالَ:" مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟" قَالَ: إِنْ تَقْتُلْ، تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وإِِنْ تُنْعِمْ، تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ تُرِدْ مَالًا، تُعْطَ مَالًا، قَالَ: فَكَانَ إِذَا مَرَّ بِهِ، قَالَ:" مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟" قَالَ: إِنْ تُنْعِمْ، تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ تَقْتُلْ، تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُرِدْ الْمَالَ، تُعْطَ الْمَالَ، قَالَ: فَبَدَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَطْلَقَهُ، وَقَذَفَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي قَلْبِهِ، قَالَ: فَذَهَبُوا بِهِ إِلَى بِئْرِ الْأَنْصَارِ، فَغَسَلُوهُ، فَأَسْلَمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَمْسَيْتَ وَإِنَّ وَجْهَكَ كَانَ أَبْغَضَ الْوُجُوهِ إِلَيَّ، وَدِينَكَ أَبْغَضَ الدِّينِ إِلَيَّ، وَبَلَدَكَ أَبْغَضَ الْبُلْدَانِ إِلَيَّ، فَأَصْبَحْتَ وَإِنَّ دِينَكَ أَحَبُّ الْأَدْيَانِ إِلَيَّ، وَوَجْهَكَ أَحَبُّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ، لَا يَأْتِي قُرَشِيًّا حَبَّةٌ مِنَ الْيَمَامَةِ، حَتَّى قَالَ عُمَرُ: لَقَدْ كَانَ وَاللَّهِ فِي عَيْنِي أَصْغَرَ مِنَ الْخِنْزِيرِ، وَإِنَّهُ فِي عَيْنِي أَعْظَمُ مِنَ الْجَبَلِ، خَلَّى عَنْهُ، فَأَتَى الْيَمَامَةَ حَبَسَ عَنْهُمْ، فَضَجُّوا وَضَجِرُوا، فَكَتَبُوا تَأْمُرُ بِالصِّلَةِ؟ قَالَ: وَكَتَبَ إِلَيْهِ. قال عبد الله بن أحمد: وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: عَنْ سُفْيَانَ، سَمِعْتُ ابْنَ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَة أَنَّ ثُمَامَةَ بْنَ أُثَالٍ، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مسلمانوں نے ثمامہ بن اثال نامی ایک شخص کو (جو اپنے قبیلے میں بڑا معزز اور مالدار آدمی تھا) گرفتار کر کے قید کر لیا جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ ثمامہ کا کیا ارادہ ہے؟ اس نے کہا کہ اگر آپ مجھے قتل کر دیں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون قیمتی ہے اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ کو مال و دولت درکار ہو تو آپ کو وہ مل جائے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جب بھی اس کے پاس سے گزر ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مذکورہ بالا سوال کرتے اور وہ حسب سابق وہی جواب دے دیتا۔ ایک دن اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ بات ڈالی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے یہ ہوئی کہ اسے چھوڑ دیا جائے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد کر دیا لوگ اس کی درخواست پر اسے انصار کے ایک کنوئیں کے پاس لے گئے اور اسے غسل دلوایا اور پھر اس نے اسلام قبول کر لیا اور کہنے لگا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کل شام تک میری نگاہوں میں آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چہرہ ناپسندیدہ اور آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین اور آپ کے شہر سے زیادہ کوئی شہر ناپسندیدہ نہ تھا اور اب آپ کا دین میری نگاہوں میں تمام ادیان سے زیادہ اور آپ کا مبارک چہرہ تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہو گیا ہے آج کے بعد یمامہ سے غلہ کا ایک دانہ بھی قریش کے پاس نہیں پہنچے گا۔ _x000D_ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واللہ یہ میری نگاہوں میں خنزیر سے بھی زیادہ حقیر تھا اور اب پہاڑ سے بھی زیادہ عظیم ہے اور اس کا راستہ چھوڑ دیا چنانچہ ثمامہ نے یمامہ پہنچ کر قریش کا غلہ روک لیا جس سے قریش کی چیخیں نکل گئیں اور وہ سخت پریشان ہوگئے مجبور ہو کر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عریضہ لکھا کہ ثمامہ کو مہربانی اور نرمی کرنے کا حکم دیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ کو اس نوعیت کا ایک خط لکھ دیا۔